اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف کیس پر سماعت ہوئی –
باغی ٹی وی : دوران سماعت عدالت نے پوچھا کہ ایف آئی اے کو گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف کتنی درخواستیں موصول ہوئیں؟ ایف آئی اے گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث مجرمان کے خلاف کاروائی میں کیوں تاخیر کررہی ہے۔
جس پر ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ پٹیشنرز کی جانب سے کل 17 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 2 درخواستوں پر ایف آئی اے نے کا ر روائی کی اور باقی درخواستوں پر انکوائری ختم کردی کیونکہ ان درخواستوں میں دیئے گئے سوشل میڈیا لنکس بلاک ہو گئے تھے، لنکس بلاک ہوجائیں تو ہم مجرمان کی شناخت نہیں کر سکتے۔
جس پر عدالت عالیہ نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے کے ایک افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ لنکس بلاک ہونے کے باوجود بھی مجرمان کی شناخت ہوسکتی ہے۔ ایف آئی اے کی نیت ہو تو سب کچھ ہوسکتا ہے،اصل مسئلہ نیت کا ہے۔
سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر،عدالت نے اہم شخصیت کو طلب کر لیا
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے لنکس بلاک ہونے پر درخواستوں پر انکوائری ختم کرنے کا بیان درست نہیں، عدالت نے گزشتہ سماعت پر ایف آئی اے کو تمام درخواستوں کا اوریجنل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا تھا، ایف آئی اے درخواستیں گم کر چکی ہے، اس لئے لنکس بلاک ہونے پر انکوائری ختم کرنے کا بیان دے کر عدالت کو گمراہ کر رہی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ درخواستوں کا اوریجنل ریکارڈ کہاں ہے، جو ریکارڈ آپ نے پیش کیا ہے، وہ اوریجنل نہیں ہے، آپ کو پٹیشنرز کو نہیں عدالت کو مطمئن کرنا ہے،تمام درخواستوں کا اوریجنل ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔
گستاخانہ مواد کی تشہیر کو کب تک نہیں روکا جا سکتا ؟ ڈی جی پی ٹی اے کا عدالت میں اظہار بے بسی
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ کی ہدایت پر اس کیس کے پٹیشنرز کو ہراساں کیا جارہا ہے، پٹیشنر شیراز احمد فاروقی کے گھر پولیس نے چھاپے مارے،حافظ احتشام احمد کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ہم آرڈر میں لکھوا دیتے ہیں کہ پٹیشنرز کو کوئی ہراساں نہ کرے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ حضور ﷺ کی عزت و ناموس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، جہاں پر مغربی ممالک کا اپنے ملک کا یا اپنے مذہب کا سوال ہو، وہاں مغرب ممالک بھی سخت کاروائی کرتے ہیں، وہ اپنے ملک کے مفاد یا اپنے مذہب کے خلاف کچھ نہیں برداشت کرتے تو ہم حضور ﷺ کی گستاخی کیسے برداشت کر سکتے ہیں، ہمارے ملک میں سوشل میڈیا پر خرافات کا سمندر ہے،سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد کے خاتمے کے لئے قوانین کا سختی سے نفاذ کیا جائے۔