کہاں گئے ہیں مسافر محبتوں والے—از—سفیر اقبال
کہاں گئے ہیں مسافر محبتوں والے
اندھیری رات میں پرنور راستوں والے
جو کھو گئے پس زندان اب وہ شہزادے
دوبارہ کب انہیں پائیں گے بستیوں والے
چھپا کے دل میں جو امت کا غم… نکلتے تھے
پہن کے تن پہ لبادے گداگروں والے
کہ دن کو رہتے تھے انسانیت کی خدمت میں
تھے ان کے شام و سحر بھی عبادتوں والے
ہر اک کا درد سمجھتے تھے اس لیے ان کو
دل و نگاہ میں رکھتے تھے قافلوں والے
تھا قافلے کو بھی معلوم کہ وہ رہبر ہیں
مزاج جن کے مگر تھے مسافروں والے
"ہوا کے ہاتھ میں کاسے ہیں زرد پتوں کے
کہاں گئے وہ سخی سبز چادروں والے ”
لوٹا دے مولا انہیں پھر سے قافلے میں میرے
وہ منزلوں کے نشاں… نیک صورتوں والے…!
شاعری :سفیر اقبال
#رنگِ_سفیر