کیا آئی سی سی یوکرینی بچوں کی منتقلی کیخلاف فرمان جاری کرے گا؟

مترجم؛ ملک رمضان اسراء
kareen khan

بین الاقوامی فوجداری عدالت میں پراسیکیوٹر جنگی جرائم کے دو مقدمات کو باضابطہ طور پر کھولتے ہوئے یوکرین کے بچوں کے بڑے پیمانے پر اغوا اور یوکرین کے شہری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے کے لیے ذمہ دار سمجھے جانے والے متعدد روسیوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے گا۔ گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق پراسیکیوٹر کریم خان پری ٹرائل ججوں سے کہے گا کہ وہ اب تک جمع ہونے والے شواہد کی بنیاد پر وارنٹ گرفتاری منظور کریں جبکہ کامیاب ہونے کی صورت میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ یوکرین پر روسی حملے کے سلسلے میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی طرف سے وارنٹ جاری ہوں.

تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وارنٹ سیل کر دیے جائیں گے جس سے مشتبہ افراد کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ آیا وہ ملوث تھے یا نہیں لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وارنٹ ٹرائل کا باعث بنیں گے کیونکہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ مدعا علیہان کی غیر حاضری میں مقدمہ نہیں چلائے گا اور روس، جو کہ آئی سی سی کا رکن نہیں لہذا انہیں دی ہیگ میں واقع عدالت کے حوالے کرنے کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق جلد ہی گرفتاری کے وارنٹ کی اطلاعات کریم خان کی جانب سے یوکرین میں ممکنہ جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی تحقیقات شروع کرنے کے ایک سال بعد سامنے آئے جبکہ پچھلے 12 مہینوں میں انہوں نے یوکرین کے تین دورے کیے اور مبینہ جنگی جرائم کے مقامات کا دورہ بھی کیا۔ اخبار نے مزید لکھا کہ روس یوکرین کے بچوں اور نوعمر کو روس لے جانے اور روسی خاندانوں کو دے رہا جبکہ وہ اس طرح انسانی حقوق کے نام پر کھلے عام قانون شکنی کررہا ہے. ادھر پیوٹن کے معاونین میں سے ایک، بچوں کے حقوق کی صدارتی کمشنر ماریہ لووا بلووا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 350 بچوں کو روسی خاندانوں نے گود لیا ہے اور 1000 سے زیادہ بچے گود لینے کے منتظر ہیں۔

باغی ٹی وی کی ریسرچ کے مطابق فروری کے اوائل میں شائع ہونے والی ایک امریکی حمایت یافتہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ روس نے کم از کم 6,000 یوکرینی بچوں کو روس کے زیر قبضہ کریمیا اور روس کے دیگر مقامات پر رکھا ہوا ہے جس کا بنیادی مقصد سیاسی طور پر ان کی نئے سرے سے ذہن سازی کرنا ہے۔ جبکہ ایئل یونیورسٹی کے محققین نے کم از کم 43 کیمپوں اور ایسی دیگر سہولیات کی نشاندہی کی تھی جہاں یوکرین کے بچوں کو رکھا گیا ہے جو فروری 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد سے ماسکو کے چلائے جانے والے ”بڑے پیمانے پر منظم نیٹ ورک” کا حصہ ہے۔

لیکن ماسکو نے شہریوں کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی تردید کی ہے اور ماسکو کے وزارت دفاع نے یوکرین کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کا اعتراف کیا ہے۔ جبکہ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ روسی افواج نے شہری علاقوں، ہسپتالوں اور اسکولوں پر "اندھا دھند اور غیر متناسب” بمباری اور گولہ باری کی ہے۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے 2 مارچ 2022 کو تحقیقات شروع کرنے کے بارے کریم خان کے فیصلے کی طرف اشارہ کرنے کے علاوہ گزشتہ پیر کو تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا جبکہ یوکرین نے دو بار آئی سی سی سے کہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر اپنے دائرہ اختیار کا استعمال کرے۔ تاہم اس حوالے سے آئی سی سی کے تینتالیس رکن ممالک نے صورتحال کو عدالت میں بھیج دیا جس سے تحقیقات کا راستہ کھل گیا۔
مزید یہ بھی پڑھیں
زمان پارک،کارکن بنے عمران خان کی ڈھال،تاحال گرفتاری نہ ہو سکی
عمران خان کو کس نے کہا کہ بیڈ کےنیچے چھپ جاو؟ مریم نواز
روٹین سے ہٹ کر کردار کرنا چاہتا ہوں عثمان مختار
نور مقدم قتل کیس، ملزمان کی اپیلوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے سنایا فیصلہ
بانی ایم کیو ایم 1 کروڑ پاؤنڈ پراپرٹی کا کیس لندن ہائیکورٹ میں ہار گئے
مریم نواز بارے جھوٹی خبر پرتجزیہ کار عامر متین کو ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا گیا
پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع
آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر پر حکومت کا امریکا سے بات کرنے کا فیصلہ
گارڈین نے مزید لکھا کہ "حالانکہ امریکہ عدالت کا رکن نہیں ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ اس بات پر منقسم ہے کہ آیا تفتیش اور استغاثہ میں مدد کے لیے آئی سی سی کے ساتھ انٹیلی جنس کا اشتراک کرنا ہے جبکہ وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بڑی حد تک تعاون کے حق میں ہیں مگر پینٹاگون اس بنیاد پر مخالفت کر رہا ہے کہ غیر رکن ریاست کی مسلح افواج کی تحقیقات کے لیے مثال قائم کرنا بالآخر جنگی جرائم پر امریکی فوجیوں کی قانونی تعاقب کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ ایسا ہونے سے روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات موجود ہیں اور عدالت کے دائرہ اختیار کو ان مقدمات تک محدود کرنا جن میں جنگی جرائم کے مشتبہ شخص کا اصل ملک مقدمہ چلانے کے لیے تیار نہیں یا ناکام ہے۔

Comments are closed.