بچے کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں آج کے بچے کل کے جوان اور قوم کے افراد بنتے ہیں ہمارا معاشرہ ایک تسلسل کے ساتھ انحطاط کا شکارہے ایسے جرائم بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جن کا دنیا کے دیگر ممالک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اگر ہم اپنے معاشرے کے بچوں کے احوال پر نظر ڈالیں تو بچے ہماری سوسائٹی میں غیر محفوظ نظر آتے ہیں۔
یہاں پرکم سن بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات عام ہیں جنسی زیادتی بعد پھولوں کو موت کی نیند سلادیا جاتاہے ۔ بچوں پر تشدد اور جنسی درندگی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اضافہ کا سبب بچوں کے ساتھ درندگی کرنے والوں کو پکڑا ہی نہیں جاتا بہت سارے کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے مقامی طور پر ملزم کو صلح صفائی کے نام پر دوبارہ سفاکیت کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔اور جو کیسز میدیا اور سوشل ایکٹیویزم کے باعث رپورٹ ہوجاتے ہیں ان میں بھی بہت سارے کمزور عدالتی نظام اور پراسیکیوشن کی وجہ سے ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔
اس ضمن میں زینب الرٹ بل ایک اچھا اقدام ہے ۔لیکن اس سے ایک قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے بچوں پر تشدد اور جنسی جرائم کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں اور ان خصوصی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے حق کو ختم کیا جائےاور مجرموں کو معاشرے میں نشانہ عبرت بنانے کے لئے مجرم کی شناخت نہ چھپائی جائے اورایسے درندوں کی تصاویر قومی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھائی جائیں تاکہ یہ شرم سے ڈوب مریں اور اپنی فیملی برادری میں بھی منہ دیکھانے کے قابل نہ ہوں ایسے افراد کے شناختی کارڈزپر چائیلڈ ابیوزر لکھ دیا جائے۔
اگر ہم نے بچوں کو آج محفوظ معاشرے نہ مہیا کیا تو ایسے دلخراش واقعات میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔ اگر آج بچوں کے خلاف یہ درندگی کو نہ روکا گیا تو اس استحصالی سلوک کا شکار ہونے والے بچے کل کو خود معاشرے سے انتقام لیں گے اور خود چائیلڈ ابیوزر بن جائیں گے لہذا خیال کیجئے کہیں بہت دیر نہ ہوجائے۔
@EducarePak








