انسان کو الله تعالیٰ نے اپنی عبادت کیلیے پیدا فرمایا ۔اللہ اگر چاہتے تو عالم ارواح ہی میں انسان کو ولایت عطا فرما دیتے ۔ لیکن اللہ نے اس کے حصول کیلئے انسان کو دنیا میں بھیجا۔
ولایت کے حصول کا راستہ تین قدم ہے۔ جب تک تینوں قدم نہیں اٹھیں گے اس وقت تک منزل پر نہیں پہنچیں گے۔ اس میں پہلا قدم علم کا حاصل کرنا ہے۔ بے علم انسان اپنے پروردگار کو نہیں پہچان سکتا۔
آدمی ہر وقت تو مفتی صاحب کے ساتھ نہیں ہوتا کہ ان سے راہنمائی لیتا رہے۔ جب کبھی تنہا ہو تو کیسے پتا چلے گا یہ کام ٹھیک ہے؟ یہ غلط ہے؟ اس لیے ضروریاتِ دین کا جانا ہر مسلمان کیلیے ضروری ہے۔
الله پاک نے انسان کے اندر تین قسم کے اعضاء بنائے ہیں۔
1: اعضائے علم 2: اعضائے عمل. 3: اعضائے مال
اعضائے علم:یعنی علم حاصل کرنے کے اعضاء ،کان،آنکھ اور دماغ۔
جو لوگ معاشرے میں تعلیم حاصل کرتے ہوں وہ دینی ہو یا دنیاوی اس انسان کا معاشرہ کے اندر اور اپنے گھر کے اندر ایک الگ مقام ہوتا ہے۔
ایک نوجوان بچے کا قدر بزرگ لوگ صرف تعلیم کی وجہ سے کرتے ہے توہمیں چاہیے کہ تعلیم حاصل کریں اور اس کا صحیح استعمال کریں اور اگر ایسا ممکن ہوا تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارا دنیا کے ان ملکوں میں شمار ہونا شروع ہوجائے گا جو
جدید علوم سے اگاہی رکھتے ہیں۔
اللہ نے ان اعضاء کو بدن کے سب سے اوپر رکھا۔ اسلیے کہ علم وقعت والا ہے۔ اور ان اعضاء کے ذریعہ انسان کو علم حاصل ہوتا ہے۔ اور قیامت کے دن بھی ان ہی اعضاء کے بارے ميں سوال ہوگا۔ "ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسؤلا” پوچھا جائے گا ان اعضاء سے کون سا علم حاصل کیا ؟ دین کا علم حاصل کیا یا نہیں؟
دنیا کی تمام تر ترقی علم پر منحصر ہے۔ علم ہی دراصل ایک انسان کو انسانی صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ جس کی بدولت انسان نیکی اور بدی میں تمیز کرسکتا ہے۔ علم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان دوسرے انسانوں پر سبقت لے جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان بجلی کی گرج سے ڈرتا تھا اور آج وہی انسان اس پر قابو پاچکا ہے۔ اسے اپنے قبضے میں کر چکا ہے۔ بجلی کو کئی اہم کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ علم کی بدولت انسان نے اطپنے لئے تفریح طبع کی سہولتیں بھی پیدا کرلیں ہیں۔ علم ایسا نور ہے جس سے جہالت اور گمراہی کی تاریکیاں دورہوجاتی ہیں۔ علم کی بدولت انسان کی چشمِ بصیرت روشن ہوجاتی ہے جس کی بدولت اس میں نیکی و بدی اور حق باطل کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ علم ایسا بیش بہا جوہر۔ علم سے انسان کے اطوار شائستہ اور اخلاق پاکیزہ بن جاتے ہیں۔ وہ دل و دماغ کو جہالت کے گہرے اندھیروں اور گہرائیوں سے نکال کر اس مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ جہاں حسد و بغض، دشمنی اور لالچ کا گزر نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان کو نیکی، خلوص، فیاضی اور دوستی جیسی عظیم صفات عطا کرتا ہے۔
دنیا کی یہ تمام تر ترقی علم ہی کی بدولت ہے علم کی بدولت ہی آج کا انسان خلاءکو مسخر کررہا ہے۔ علم انسان کو جرات،بہادری، ہمت، استقلال، تدبر و بردباری اور ہر قسم کی عقدہ کشائی کی صلاحیت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے دنیا کا چپہ چپہ چھان مارا، قطبِ شمالی سے لیکر قطب جنوبی تک زمین کو رندتا چلا گیا۔
انسان کے اندر کچھ فطری چیزیں ہوتی ہیں جیسے بھوک اور پیاس کا ہونا۔ اسی طرح انسان میں علم کا جزبہ بھی فطری ہوتا ہے۔ اس کی آسان سی دلیل جہاں کوئی چند آدمی اکھٹے کھڑے ہوں ۔دوسرا کوئی آدمی آجائے تو فوراً پوچھے گا کیا ہوا ؟ کیوں کھڑے ہو؟ اور اگر کوئی واقعہ درپیش ہو تو پھر سوال ہو گا ۔کیسے ہوا؟ یہ سب اصل میں علم ہے ۔ چونکہ وہ آدمی لاعلم ہوتا ہے۔ اور اس علم کیلیے وہ سوال کرتا ہے۔ اسی لیے ضرورتِ دین کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔ "الطلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ”۔
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ علم ایک روشنی ہے۔ اس کے برعکس دیکھا جائے تو جہالت اندھیرا ہے، یہ اندھیرا روشنی سے دور ہو گا۔ نہ کہ اندھیرے کو گالیاں دینے سے وہ دور ہو گا ۔ جس طرح ایک حقیقی اندھیرا بغیر روشنی کے دور نہیں ہوتا ۔اسی طرح جہالت کا اندھیرا بھی علم کی روشنی بغیر دور نہیں ہوگا۔ لہذا علم حاصل کریں ۔ جہالت خود بخود دور ہو جائے گی، اور ولایت کا حصول بھی آسان ہو جائے گا۔ بندگی کا طریقہ بھی علم میں آجائے گا۔
Twitter | @AdnaniYousafzai