شہادت حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ تحریر:سید عمیر شیرازی

0
123

قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے
وہ لوگ جو میرے راستے میں قتل کر دیے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم ان کی زندگی سمجھ نہیں سکتے دوسری جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں
وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں قتل کر دیے گئے ہیں انہیں مردہ گمان بھی نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس سے انہیں رزق ملتا ہے،
شہداء اپنی فانی زندگیوں کو قربان کر کے ابدی حیات پاتے ہیں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت بہت بڑی فضیلت والی شہادت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماہ محرم اور خصوصا "یوم عاشورہ” کو فضیلت بخشی گئی ہے۔
اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مرتبے پر فائز کیا
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کو ٹھنڈا کیا،حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی سے اتارا،حضرت موسی علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی،
حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی روشنی واپس آئی،حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا،حضرت یوسف علیہ السلام قید سے آزاد ہوئے۔۔
اس حوالے سے یوم عاشوراء کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس روز کا روزہ رکھنا بڑی فضیلت کا حامل ہے
واقعہ کربلا اسلامی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ ہے جہاں انسان کی عقل کام کرنا چھوڑ جاتی ہے کیسے نواسہ رسولﷺ کی آل پر ظلم کیا گیا بڑے بچے بزرگوں سب کو شہید کرکے،
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیشہ اپنی قوم کا ساتھ نبھایا لیکن آپؓ کی صفوں میں ابن سباء لعنتی کی نسل نے گھر جمادیا اور آپؓ کو دھوکے سے میدان کربلا بلایا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بات چیت کے لئے گئے لیکن شاید اللّه کو کچھ اور منظور تھا آپؓ کی شہادت کا وقت قریب سے قریب تر تھا آپؓ اپنے پورے خاندان کے ہمراہ سفر پر آئے اور آپؓ پر راستے میں بھی ظلم کی داستان نا ختم ہوئی لیکن اسکے باوجود حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ واپسی کے لئے نہیں پلٹے بلکے حق پر قائم رہے۔

رجب ٦٠ ھ ہجری میں جب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کے بعد یزید نے مدینہ منورہ کے گورنر ولید بن عتبہ لکھا کہ حسین ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے فوری طور پر بعیت لےلو اور جب تک وہ بعیت نہ کریں انہیں مت چھوڑو،
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور مکہ تشریف لے گئے آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یزید مسلمانوں کی امامت و سیادت کہ ہرگز لائق نہیں تھا بلکہ فاسق و فاجر،شرابی اور ظالم تھا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو (کوفیوں) نے متعدد خطوط لکھے اور کئی قاصد بھیجے کے آپ کوفے آئیں ہمارا کوئی امام نہیں ہم آپ سے بعیت کریں گے۔
خطوط کی تعداد اس قدر تھی کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ سمجھا کہ مجھ پر ان کی رہنمائی کے لئے اور انہیں فاسق و فاجر کی بعیت سے بچانے کے لئے جانا ضروری ہو گیا ہے،
حالات سے آگاہی کے لیے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفہ بھیجا جن کے ہاتھ پر بے شمار لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی لیکن جب ابن زیاد نے دھمکیاں دی تو (کوفی) اپنی بعیت سے پھر گے اور مسلم بن عقیل رضی اللہ شہید کر دیئے گئے۔۔
جب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی شہادت اور (اہل کوفہ) کی بے وفائی کی خبر اس وقت ملی جب آپؓ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہو چکے تھے
مختصر یہ ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے میں بچے خواتین اور مرد ملا کر (بیاسی 82) نفوس تھے جو کہ جنگ کے ارادے سے بھی نہیں آئے تھے ان کے مقابلے کے لیے یزیدی فوج بائیس ہزار سوار پیادہ مسلح افراد پر مشتمل تھے اور اس کے باوجود ظالموں نے (اہل بیت اطہارؓ) پر دریائے فرات کا پانی بند کر دیا تین دن کے بھوکے پیاسے سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے 18 اہل بیتؓ اور دیگر چون 54 جاں نثاروں کے ہمراہ دس محرم الحرام ٦١ ھ میدان کربلا میں شہید کر دیے گئے۔
اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اہل بیت اور صحابہ کی سچی محبت کرنے والا بنا دے اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا مقصد سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والا کامل ایمان والا بنا دے
آمین ثم آمین

@SyedUmair95

Leave a reply