سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو عمران خان کی بیٹوں سے فون پر بات نہ کرانے کی وجوہات سے آگاہ کر دیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ذاتی معالج سے معائنے، اہلیہ بشریٰ بی بی سے ملاقات اور بیٹوں سے فون پر بات کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران عمران خان کے وکلا اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس عامر فاروق نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے سوال کیا کہ آپ نے درخواست گزار کو کیا سہولتیں فراہم کی ہیں؟ سپرنٹنڈنٹ جیل نے جواب دیا کہ کیٹیگری بی کے تحت عمران خان کو تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں، جن میں 16 ٹی وی چینلز اور دو اخبارات شامل ہیں۔سپرنٹنڈنٹ جیل نے مزید بتایا کہ بانی پی ٹی آئی کو ایک باورچی بھی فراہم کیا گیا ہے اور جیل میں ہفتے میں دو ملاقاتوں کی اجازت ہے، تاہم، ہم تین یا چار ملاقاتیں بھی کروا دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سزا سے پہلے بشریٰ بی بی کو ملاقات کی اجازت دی جاتی تھی اور سزا کے بعد بھی ملاقات کروا دی جاتی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ بچوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟ اس پر سپرنٹنڈنٹ جیل نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ہم اوورسیز کالز اس لیے نہیں کروا سکتے کیونکہ اڈیالہ جیل میں 8 ہزار قیدی ہیں اور اگر ایک قیدی کو یہ اجازت دی گئی تو دیگر قیدی عدالت میں اس پر چیلنج کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق جیل میں 25 بیرون ممالک سے آئے ہوئے قیدی بھی موجود ہیں اور جیل رولز اور حکومت کی پالیسی کے مطابق انٹرنیشنل کالز کی اجازت نہیں ہے۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ماضی میں پرائیویٹ ڈاکٹروں کو ملنے کی اجازت دی گئی تھی، جس پر سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں پاکستان کی بہترین صحت سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں اور ڈاکٹر روزانہ کی بنیاد پر عمران خان کا چیک اپ کرتے ہیں۔عدالت نے عمران خان کی جیل میں سہولتیں فراہم کرنے کی درخواست نمٹا دی، اور سپرنٹنڈنٹ جیل کو مزید ہدایات جاری کیں کہ وہ قیدی کی صحت اور جیل کی دیگر سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات جاری رکھیں۔
دوہری شہریت کس کس کی؟ ایف بی آر افسران کی تفصیلات طلب
حکومت صحت سہولتوں کی فراہمی کئلیے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ،وزیراعظم