ایک طرف الیکشنز کی تیاری تو دوسری طرف انڈیا کا برا وقت چل رہا ہے لیکن اس بار بھی مودی سرکار کے پاس ایک ہی حل ہے کہ اپنی عوام میں جنگی جنون کو ابھارا جائے مذہب کی بنیاد پر پہلے ہی تقسیم شدہ عوام کے سمندر کو اور تقسیم کیا جائے۔بھارتی ریاست اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں ویسے ویسے بھارت میں کشمیر، پاکستان اور طالبان کے حوالے سے سیاست گرم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے ہر روز کوئی نہ کوئی متنازعہ بیان ضرور سامنے آتا ہے جو جلتی پر آگ کا کام کر سکے۔
اب آدتیہ ناتھ یوگی کو تو آپ جانتے ہی ہیں ان کو تو عام حالات میں چین نہیں آتا تو ایسی صورتحال میں جب باقی سب سیاستدان بھی خوب ایکٹیو ہوئے ہوئے ہیں تو وہ کہاں پیچھے رہ سکتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اتر پردیش میں الیکشنز کی وجہ سے بی جے پی نے ایک کمپئین شروع کی ہوئی ہے۔ اور آج اسی سلسے میں ایک جلسہ بھی منعقد کیا گیا جس میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے سیاسی مخالفیں پر تو گولہ باری کی ہی لیکن آپ کو پتہ ہے کہ انڈیا میں کوئی الیکشن ہو اور پاکستان کو اس میں نہ گھسیٹا جائے ایسا ہو نہیں سکتا تو آج کے اپنے بیان میں پاکستان کے حوالے سے ان کو کہنا تھا کہ طالبان کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان پریشانی محسوس کر رہے ہیں لیکن طالبان کو یہ بات معلوم ہے کہ اگر انہوں نے بھارت کی جانب قدم بڑھایا تو ان کے لیے فضائی حملہ تیار ہے۔ آج وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ملک کافی طاقتور ہو چکا ہے اور کوئی بھی ملک بھارت کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرات بھی نہیں کر سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو ان کا یہ بیان پڑھ کر مجھے کافی ہنسی بھی آئی کیونکہ جتنی مزاحیہ بات انھوں نے کی ہے اس پر انسان ہنس ہی سکتا ہے۔ یعنی وہ انڈیا جس کو طالبان کی حکومت آنے پر یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنے لوگوں کو وہاں سے کیسے نکالے بلکہ ابھی تک بھی انڈیا کو کوئی راستہ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ طالبان کے ساتھ اپنے رابطے کیسے بڑھائیں۔ وہ طالبان جن کی حکومت آنے پر پورے انڈین میڈیا پر سوگ منایا جا رہا تھا کہ ہماری سرکار کی بیس سالوں کی انویسٹمنٹ ڈوب گئی آج اس کی حکمران جماعت کے لوگ یہ بات کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان جس کے کردار کو طالبان حکومت بننے اور امریکہ کے افغانستان سے پر امن طریقے سے نکلنے پر پوری دنیا نے سراہا یہ ہمارے بارے میں یہ باتیں کر رہے ہیں۔
اور یہ فضائی حملوں کی دھمکیاں بھی اب پرانی ہو چکی ہیں یاد کریں کہ چین سے ایل اے سی پر آپ کو کیسی مار پڑی تھی پاکستان میں جب آپ نے گھسنے کی کوشش کی تو ابھی نندن کو کیسی چائے پلائی تھی ویسے بھی پاکستان نیوی کے ہاتھوں بھی جتنی بار آپ ذلیل ہو چکے ہیں تو اس کے بعد اس طرح کے بیانات پر کوئی ان کو کیا کہہ سکتا ہے۔ لیکن حد تو یہ ہے کہ بی جے پی اپنے جنگی جنون اور ہندوتوا سوچ کی وجہ سے بیانات دیتے ہوئے اتنا آگے نکل جاتی ہے کہ اسے سیدھی بات بھی الٹی نظر آتی ہے۔ اسی جلسے میں یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست میں اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف اور سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی کہ انہوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کا موازنہ بھارتی رہنما سردار پٹیل سے کیا، جو ایک شرمناک بات ہے اور طالبانی ذہنیت کی عکاس ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ طالبانی ذہنیت ہے، جو تقسیم پر یقین رکھتی ہے۔ سردار پٹیل نے تو ملک کو متحد کیا تھا۔ فی الحال وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ایک متحد اور اعلی ترین بھارت کے حصول کے لیے کام جاری ہے۔ حالانکہ اکھیلیش یادو نے موازنہ کرنے کی تو بات ہی نہیں کی تھی بلکہ یہ کہا تھا کہ سردار پٹیل، گاندھی جی، جواہر لعل نہرو اور محمد علی جناح جیسی شخصیات نے ایک ہی ادارے سے تعلیم حاصل کی تھی اور بیرسٹر بنے تھے۔ انہوں نے بھارت کی آزادی کے لیے جد وجہد کی اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔اب اس بیان میں آپ دیکھ لیں کہ انھوں نے تو ان شخصیات کو کوئی موازنہ کیا ہی نہیں اور جو کہا وہ حقیقت ہے کہ انھوں نے ایک ہی ادارے سے تعلیم حاصل کی تھی۔دراصل جس بات سے آدتیہ ناتھ کو تکلیف ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ اکھیلیش یادو نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ سردار پٹیل نے آر ایس ایس کے نظریات پر پابندی بھی عائد کی تھی۔ آج اسی نظریے کے لوگ جو متحدہ کرنے کا دعوی کر رہے ہیں ملک کو مذہب اور ذات پات کے نام تر تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
دراصل قائد اعظم تک کو جو اپنے بیانات اور سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے اس کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ یوپی کی یو گی حکومت کو اس بار سخت ترین حکومت مخالف رجحان کا سامنا ہے ریاست میں بے روزگاری، مہنگائی اور کورونا کی وبا کے سبب ہونے والی اموات ایسے بڑے موضوعات ہیں جس کی وجہ سے حکومت پر بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے اور اسی لیے وہ اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے تاکہ عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے اس سے سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے کیونکہ ایسی صورت میں ان کے پاس مذہبی کارڈ کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ اسی لیے اس مرتبہ بی جے پی اتر پردیش کے انتخابات میں طالبان کا بھی خوب ذکر کررہی ہے۔ تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ حکومت ہندوؤں کے مفادات کا خیال رکھتی ہے اور اس نے مسلمانوں کو قابو میں کر رکھا ہے۔ کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ اس طرح کے تاثر سے اسے سیاسی فائدہ ہو گا، ورنہ الیکشن سے پہلے آپ خود سوچیں کہ اس طرح کے اعلانات کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے؟لیکن اس نفرت میں بے جے پی اتنا آگے بڑھ چکی ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ تک بھی کہہ دیا کہ طالبان کی حمایت کا مطلب بھارت کی مخالفت ہے۔ اس سلسلے میں پولیس نے یو پی میں بعض افراد کے خلاف بغاوت کا کیس بھی درج کیا تھا۔ اور بھارت کے ضلع سہارنپور کا قصبہ دیوبند جو اپنے تاریخی مدرسے دارالعلوم دیوبند اور فقہ اکیڈمی کے لیے عالمی سطح پر مشہور و معروف ہے۔ اس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور نسبتا پرامن علاقہ ہے جہاں شاذ و نادر ہی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے وہاں ایک اینٹی ٹیررازم اسکواڈ کے لیے تربیتی مرکز کھولنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
اس یوگی حکومت کی اصلیت تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس نے تبدیلی مذہب کے نام پر کئی سرکردہ مذہبی مسلم اسکالر کو گرفتار بھی کر رکھا ہے جبکہ حال ہی میں ریاست کے کئی مقامات پر گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی کا بھی اعلان کیا تھا۔تو ایک طرف تو بی جے پی کو یہ گھناونا چہرہ ہے کہ کیسے الیکشنز کے لئے لوگوں میں نفرت کو ابھارا جا رہا ہے۔ دوسری طرف انڈیا میں ایک نفرت انڈین کرکٹ ٹیم کی بری کارکردگی کی وجہ سے بھی پھیلی ہوئی ہے پاکستان سے ہار جب برداشت نہیں ہوئی تو کچھ لوگوں نے انڈیا کے فاسٹ بولر محمد شامی کو اس شکست کا ذمہ دار قرار دینا شروع کر دیا اور اس پر جان بوجھ کر رنز دینے کا الزام لگایا اور اسے غدار اور ملک دشمن کا ٹائٹل دے دیا۔ اور جب ایک ہفتے بعد انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے محمد شامی کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانے اور ٹرولنگ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کرنے والوں میں اتنی جرات نہیں کہ وہ سامنے آ کر کچھ بول سکیں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں محمد شامی نے ہمیں کئی میچ جتوائے ہیں اور ٹیسٹ کرکٹ میں جب بھی بولنگ کی بات کی جاتی ہے تو بمراہ کے ساتھ شامی ہمارے اہم ترین بولر رہے ہیں کسی کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانا بدترین انسانی عمل ہے۔تو اس بیان کے بعد محمد شامی کے ساتھ ساتھ کوہلی خود بھی سوشل میڈیا صارفین کے غصے اور تنقید کی زد میں آ گئے۔شاہ رخ خان کے بیٹے آریان خان کے ساتھ مسلم دشمنی میں جو سلوک کیا گیا کچھ بھی ثابت نہ ہونے کے باوجود اس کی ضمانت کی درخواست بار بار مسترد کی جاتی رہی اس کو تقریبا ایک ماہ تک جیل میں رکھا گیا کہ اب وہ باہر آ کر بھی شدید ڈپریشن میں ہے اور نہ وہ کچھ کھا سک رہا ہے نہ سو پا رہا ہے۔ ڈاکٹرز کی ایک پوری ٹیم ہائر کی گئی ہے تاکہ کسی طرح اس کو اس کنڈیشن سے باہر نکالا جا سکے۔تو ان حالیہ واقعات سے دیکھ لیں جس حکومت کی اتنی جنونی سوچ ہو اور وہ لوگوں میں نفرت پھیلا رہی ہو جہاں اتنے بڑے بڑے نام محفوظ نہ ہوں تو سوچین کہ وہاں ایک عام مسلمان کس ٹرامہ سے گزرتا ہو گا۔