بھارتی سکیورٹی اداروں نے پہلگام واقعے پر تنقید کرنے والے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب تک تین مختلف ریاستوں سے 25 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ان گرفتاریوں کا تعلق سوشل میڈیا پر اس واقعے سے متعلق سوالات اٹھانے سے ہے۔
بھارتی پولیس نے ریاستی سطح پر کارروائیاں کرتے ہوئے آسام، میگھالیہ اور تریپورہ میں کم از کم 25 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں ایک ایم ایل اے، صحافی، طلبہ، وکیل اور ریٹائرڈ اساتذہ شامل ہیں۔ ان افراد کے خلاف گرفتاریوں کا سبب سوشل میڈیا پر پہلگام حملے کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات ہیں۔آسام سے تعلق رکھنے والے 16 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں سب سے پہلے آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے ایم ایل اے امین الاسلام کی گرفتاری ہوئی۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2019 کے پلوامہ اور حالیہ پہلگام حملوں کو "حکومتی سازش” قرار دیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔امین الاسلام کے علاوہ دیگر گرفتار شدگان میں صحافی جابر حسین، آسام یونیورسٹی کے طالب علم اے کے بہاؤالدین، وکیل جاوید مظفر اور کئی سوشل میڈیا صارفین شامل ہیں۔ ان افراد کو حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر سوال اٹھانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ تمام گرفتاریاں اس وقت ہو رہی ہیں جب بھارت میں اس نوعیت کے اقدامات کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ پہلگام حملے کی تحقیقات اور اس پر حکومتی موقف پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس واقعے نے نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے، اور بھارت کے اندر اندرونی سیاسی اور سکیورٹی صورتحال پر مزید سوالات اٹھنے لگے ہیں۔