ایڈیشن: English | پشتو | 中國人
Dark
Light

کشمیر پر بھارتی تسلط اور 35-A کا قانون ۔۔۔محمد عبداللہ گل

6 سال قبل
تحریر کَردَہ

کشمیر پر انڈیا کا غاصبانہ اور جابرانہ قبضہ ہے۔قبضے سے قبل کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر پر ڈوگرا راج تھا۔انڈیا کے آئین میں جموں کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفع 35-A کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔ اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927 سے 1932 کے درمیان مرتب کیے تھے اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954 میں ایک صدارتی حکمنامہ کے ذریعہ آئین ہند میں شامل کرلیا گیا۔انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) گذشتہ 70 سال سے کشمیر سے متعلق انڈین آئین میں موجود اُن تمام حفاظتی دیواروں کو گرانا چاہتی ہے جو جموں کشمیرکو دیگر بھارتی ریاستوں سے منفرد بناتی ہیں۔ مثال کے طور پرجموں کشمیر کا اپنا آئین ہے اور ہندوستانی آئین کی کوئی شق یہاں نافذ کرنی ہو تو پہلے مقامی اسمبلی اپنے آئین میں ترمیم کرتی ہے اور اس کے لیے اسمبلی میں اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے۔آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنے کے لیے بھارتی کوششیں آخر کیوں؟؟ اس سوال کا جواب یہ ھے کہ جس طرح فلسطین یروشلم پر اسرائیل نے قبضہ کیا تو کچھ سال بعد اس کی قانونی حثیت ختم کی اور ادھر اپنا سفارت خانہ قائم کر لیا۔اسی طرح بھارت بھی کشمیر کی قانونی حثیت ختم کرنا چاہتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ قانون ختم ہو جاتا ہے تو بھارت ایک حربہ استعمال کرے گا وہ یہ کہ کشمیر میں کثیر تعداد میں ہندو متین کر دے گا اور جیسا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں کشمیر میں استصواب رائے کا ہے تو یہاں کشمیری عوام اکثریت میں پاکستان سے الحاق چاہتی ہے تو جب وہ اپنے نمائندے متین کرے گا وہ بھی کثیر تعداد میں تو استصواب رائے کا فیصلہ بھارت کے حق میں ہو جائے گا۔میں حیران ہوں جب میں نے تحریر کے لیے ریسرچ کی تو سامنے آیا کہ آرٹیکل 35 اے کو بنانے کے پیچھے جو نظریہ تھا وہ یہ تھا کہ کشمیر کا تعلق لاہور، سیالکوٹ ،گوجرانوالہ سے بھرپور تھا جب ہندو پنڈتوں نے دیکھا کہ مسلمان ادھر کشمیر میں دوسرے علاقوں سے آنا شروع ہو گئے ہیں تو ان کو خطرہ لاحق ہوا کہ ہم تو صرف 2 سے 3 فیصد ہے اگر باہر سے بھی مسلمان آنا شروع ہو گے تو ہمارا اقتدار، ہمارا ہٹ دھرمی والا قبضہ ختم نہ ہوجائے اب 2019 کو دیکھ کے بے جے پی کا نریندر مودی جس کو بھی یہ ہی خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ جس طرح اب بین الاقوامی سطح پر مسلہ کشمیر اجاگر ہو چکا ہے۔اگر کشمیر میں استصواب رائے شروع ہو گئی تو میرا تو کام خراب ہو جائے گا میرے ہاتھوں سے تو کشمیر پھسل کر پاکستان سے مل جائے گا ۔اسے بھی پتہ ہے کی کشمیر کو بالآخر آزادئ ملنی ہی ملنی ہے میرا یہ ہٹ دھرمی والا قبضہ ختم ہونا ہے ۔اس لیے ہاتھ پاوں مار رہا ہے۔اس کے بعد اگر دیکھے تو بھارت نے 10 ہزار مزید فوج وادی کشمیر میں بھیج دی ہے جو کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔اب تک تقریبا 10 لاکھ کے قریب بھارت کی فوج ایک چھوٹے سے خطے میں موجود ہے۔کیا یہ اقوام متحدہ کو نظر نہی آ رہا۔غیر مسلم ممالک کا کوئی کتا بھی مر جائے تو قوانین آ جاتے ہیں ادھر ہمارے کشمیری مظلوم اور غیور مسلمانوں پر انڈین مظالم کی انتہا ہے۔اب تک سینکڑوں نہی ہزاروں نہی لاکھوں کو انڈین آرمی اپنے ظلم و ستم کا شکار کر چکی ہے۔میرا سوال ہے کدھر اقوام متحدہ ہے ،کیا سلامتی کونسل سو گئی ،کہاں گئے انسانی حقوق، کہاں گئی بین الاقوامی وہ تنظیمیں اور ادارے جو آزادی پسند ہے۔اقوام متحدہ کا رویہ نا قابل برداشت ہے۔وہ کشمیری عوام پاکستان کو پکار رہی ہے ۔پاکستان کو چاہیے یہ مسلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کریں

Latest from بلاگ