اسلام آباد:دنیا کرونا سے مررہی ہے ، بھارتی خفیہ ایجنسیاں غیرملکی سیاستدانوں کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکارکررہی ہیں،ذرائع کےمطابق ایک انتہائی حساس سرکاری دستاویز کے مطابق بھارت کی خفیہ ایجنسیوں ریسرچ اینڈ انیلیسس ونگ (را) اور انٹلی جنس بیورو (آئی بی) کے لئے کام کرنے والے بھارتی ایجنٹوں نے کینیڈا کے سیاست دانوں پر اثر انداز ہونے کے لئے خفیہ طور پر پیسہ اور جھوٹی معلومات استعمال کرنے اور زبردست لابینگ کے ذریعے پاکستان اور اس کے شہریوں کو غلط طور پر "دہشت گردی” سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔

ذرائع کےمطابق کشمیر میڈیا سروس کے مطابق گلوبل نیوز نے ایک رپورٹ میں کہاہے کہ دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ کینیڈا کے سیکیورٹی عہدیداروں کو شبہ ہے کہ بھارت کی دو اہم انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک بھارتی شہری کو کینیڈا میں سیاستدانوں کو بھارتی مفادات کی حمایت پر راضی کرنے کے لیے کہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ را اور آئی بی 2009 سے اس آپریشن میں مصروف ہیں۔کینیڈا کے ایک سرکاری عہدیدار نے کہا جب کوئی ملک دوسرے ملک کے جمہوری نظام میں مداخلت جیسا غیر مستحکم کرنے والا رویہ اختیار کرتا ہے،تو اس ملک کی حکومت کو تشویش لاحق ہوتی ہے۔

رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ کینیڈا کے انٹلی جنس حکام کو بھارتی ایجنسیوں پر شک ہے کہ وہ اس مقصد کے لئے ایک بے نام بھارتی اخبار کے چیف ایڈیٹر کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ایڈیٹر کی اہلیہ اور بچے کینیڈا کے شہری ہیں اور جب اس نے کینیڈا منتقل ہونے کے لئے درخواست دی تو اس کے خلاف خفیہ طورپر تحقیقات کا آغاز کیاگیا۔ بھارت کے ملوث ہونے کی

تفصیلات پہلے کینیڈا کی ایک وفاقی عدالت میں سامنے آئیں جہاں کینیڈا کے حکام نے مذکورہ ایڈیٹر پر جاسوسی کا الزام لگایا ہے ۔رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ ملزم بھارتی شہری نے چھ سال کی مدت میں دو درجن سے زیادہ بار بھارتی انٹیلی جنس حکام سے ملاقات کی۔ایک امیگریشن عہدیدار کی طرف سے انہیں بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ”آپ نے بتایا کہ آپ کو بھارتی حکومت نے را کے ذریعے کینیڈا کے حکومتی نمائندوں اور اداروں پر خفیہ طور پر اثرانداز ہونے کا کام سونپا تھا۔آپ نے بتایا کہ آپ کو کینیڈین سیاستدانوں کی نشاندہی کرنے اور بھارت پر اثرانداز ہونے والے امور میں ان کی حمایت حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی ۔آپ نے بتایا کہ را کی ہدایات میں یہ بھی شامل تھا کہ آپ سیاست دانوں کو مالی مدد اور پروپیگنڈا کا سامان فراہم کریں تاکہ ان پراثرانداز ہوا جائے“۔

30 مئی 2018ء کو لکھے گئے خط کے مطابق ان کے کاموں میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ کینیڈا کے سیاست دانوں کواس بات پر قائل کریں کہ دہشت گردی کی حمایت کے لئے کینیڈا سے فنڈز پاکستان بھیجے جارہے ہیں ۔کم سے کم 12 لاکھ کینیڈین بھاتی نژاد ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ کینیڈا میں مقیم ہزاروں سکھوں کو خالصتان تحریک اور بھارت سے آزادی کی حمایت کرنے کا شک کیا ہے۔کینیڈا کی عدالت میں را کے خلاف لگائے جانے والے الزامات خاص طور پر بھارت کے لئے شرمناک ہیں کیونکہ دسمبر 2019 ء میں ایک جرمن عدالت نے ایک بھارتی جوڑے کو اس وقت سزا سنائی جب انہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے لئے کشمیری اور سکھ آزادی پسند گروپوں کی جاسوسی کا اعتراف کیا تھا۔

عدالتی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ اس جوڑے نے جن کا نام منموہن ایس اور ان کی اہلیہ کنول جیت کے ہے ، معلومات کے حصول کے لئے 7 ہزار یورو وصول کئے تھے۔من موہن ایس کو جاسوسی کے الزام میں 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ ان کی اہلیہ کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا۔فرینکفرٹ کی عدالت کو بتایا گیا تھا کہ 51 سالہ منموہن ایس کو’ را‘ نے 2015 میں بھرتی کیا اور اسے کہاگیا تھا کہ وہ کشمیری آزادی پسند گروپوں کی جاسوسی کرے۔ایک عدالتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے کولون اور فرینکفرٹ میں سکھوں کے گرجاگھروں کے اندرونی معاملات کے علاوہ سکھ برادری کی طرف سے ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی بھی اطلاعات دی تھیں۔

انہوں نے جولائی 2017 سے ایک بھارتی انٹیلی جنس افسر کے ساتھ باقاعدہ ملاقاتیں کیں اور ان کو فراہم کردہ معلومات کے لئے ماہانہ 200 ڈالر دیئے گئے۔دسمبر 2019 میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ’را‘ کے ذریعے یورپ بھر میں جعلی ویب سائٹس اور تھنک ٹینکس کا عالمی نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد یورپ میں فیصلہ سازی کو بھارت کے حق میں متاثر کرنا اور پاکستان کی مخالفت کرنا ہے۔برسلز میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم یورپی یونین ڈس انفو لیب کی ایک رپورٹ کے مطابق 265 سائٹوں کا مربوط نیٹ ورک 65 ممالک میں کام کرتا ہے۔ اس نیٹ ورک میں ایسے گروپوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو یورپ میں پاکستان مخالف لابنگ کے لئے ذمہ دار ہیں۔یورپی یونین ڈس انفو لیب کے ایگزیکٹو ایڈیٹر Alexandre Alaphilippe نے کہاکہ جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس سے زیادہ جعلی این جی اوز کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ تشویشناک ہے کیوں کہ یہ کسی بھی مقصد کو آن لائن اور نچلی سطح پر مدد فراہم کرتی ہیں اور یہیں سے غلط معلومات کا آغاز ہوتا ہے۔

Shares: