افغانستان پھر لہو لہو، بھارت اپنی سازشوں سے باز نہ آیا، اہم انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

0
49

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ جب سے ہمارے ہمسائے افغانستان میں امن معاہدہ کا اعلان ہوا ہے بہت سے طاقتیں اور قوتیں اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہو گئی ہیں جن میں بھارت پیش پیش ہے ۔ روز کوئی نہ کوئی دہشت گردی اور شدت پسندی کے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ آج بھی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے نتیجے میں دارالحکومت کے ڈپٹی گورنر ہلاک ہوگئے ہیں ۔ رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ نامعلوم حملہ آوروں نے بم ان کی کار کے ساتھ منسلک کردیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کابل کے ڈپٹی گورنر محبوب اللہ محبی کے ساتھ ان کے سیکریٹری بھی مارے گئے ہیں ۔ ابھی تک کسی عسکری گروہ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اب جہاں ایک جانب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغان مذاکرات کی کوششیں آگے بڑھ رہی ہیں وہیں افغانستان میں مسلسل شورش کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں۔میں اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے جلدی جلدی آپکو چند دن پہلے واقعات بتا دیتا ہوں ۔ جیسےابھی گزشتہ ہفتے ہی کابل میں افغان حکومت کے ایک پراسیکیوٹر کو اس وقت گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا جب وہ اپنے کام پر جارہے تھے۔ جبکہ30 نومبر کو افغانستان میں فوجی اڈے پر ہونے والے ایک خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں 30 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔اس سے قبل 21 نومبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل کے گنجان آباد علاقوں پر متعدد راکٹ حملے ہوئے تھے جن میں کم از کم 8
افراد ہلاک ہوئے۔ حملے کی ذمہ داری دہشت گرد گروپ ۔۔۔ داعش ۔۔۔ نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

گزشتہ ماہ کے آغاز میں بھی کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتب میلے کے افتتاح کے موقع پر بھی دھماکہ ہوا تھا ۔ داعش نے ہی اس دہشت گردی واقعہ کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جن میں 50 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جن میں بیشتر طلبا تھے۔دوسری جانب افغان حکومت نے جنوبی صوبہ قندھار میں گزشتہ ہفتے کے آخر میں ہونے والے مبینہ فضائی حملے میں بچوں سمیت ایک درجن کے قریب شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات کی تحقیقات کر رہی ہیں۔اتوار کے روز طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ ۔۔۔ ارغنداب ۔۔۔ میں سرکاری فوج نے فضائی حملے میں کم از کم 13 شہریوں کو ہلاک کردیا تھا جس کے نتیجے میں حکومت کی جانب سے فوری طور پر انکار کردیا گیا ۔ اور اس کے نتیجے میں اصرار کیا گیا کہ اس علاقے میں جب طالبان نے بم دھماکہ کیا تو سات شہری ہلاک ہوئے۔امریکہ میں مقیم ایک انسٹی ٹیوٹ نے گذشتہ ہفتے انتباہ کیا تھا کہ رواں سال جولائی سے ستمبر تک افغان سرکاری افواج کے فضائی حملوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے ، ایسے حملوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اس انسٹی ٹیوٹ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ ۔ سن 2019 میں ، فضائی حملوں میں 700 عام شہری ہلاک ہوئے ۔ جبکہ گزشتہ چند ماہ کے واقعات میں یہ تعداد ایک ہزار سے زائد ہوچکی ہے ۔ جب سے امن معاہدہ اعلان ہوا ہے شاید ہی کوئی ہفتہ ہو جب کوئی پرتشدد واقعہ رپورٹ نہ ہوا ہو ۔افغانستان میں گزشتہ چند ماہ میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان 12 ستمبر سے قطر میں جاری امن مذاکرات کے باوجود کابل میں کئی جان لیوا حملے ہوچکے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں پرتشدد واقعات میں امریکی فوجیوں کے جاری انخلا کے باوجود کمی نہیں آئی ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ وجہ میں آپکو بتا دیتا ہوں کہ بھارت نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن ہو ۔ سب جاتنے ہیں کہ افغانستان میں داعش کے پیچھے بھارت ہے ۔ مودی ہے ۔۔ را۔۔ ہے ۔ اجیت ڈول ہے ۔ اب تو بین الاقوامی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹس آچکی ہیں جس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بھارت دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ سمیت ٹریننگ بھی مہیا کرتا ہے ۔ پاکستان اس حوالے سے اہم dosierدنیا کے سامنے لا چکا ہے ۔ indian chronicles والے نیٹ ورک بارے بھی بھارت بے نقاب ہوچکا ہے ۔ اس وقت بھی جو افغانستان میں کاروائیاں ہورہی ہیں ۔ وہ بھارت کے ایما پر ہورہی ہیں ۔ وہ چاہے اب افغان حکومت میں ہوں یا افغان آرمی میں یا پھر داعش یا ان جیسے کرائے کے قاتل ۔۔۔ جو بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ اور یہ نہیں چاہتے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ یہ کسی نہ کسی طرح افغانستان کو ایک بار پھر خانہ جنگی میں جھونکنا چاہتے ہیں ۔ اور پاکستان کو افغانستان کے معاملے پر پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں ۔ دراصل عمران خان افغانستان کو انڈیا سے دور لے جا چکے ہیں ۔ جس کی بھارت کو بہت تکلیف ہے ۔ 19 نومبر کو جب عمران خان پہلی بار افغانستان کے دورے پر گئے تو افغان صدر اشرف غنی نے ان کے اس دورے کو تاریخی قرار دیا۔ عمران خان نے اس دورے کے دوران کہا تھا کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے وہ ہرممکن مدد کریں گے۔انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر افغانستان کو لگتا ہے کہ ہم کسی بھی محاذ پر امن کی بحالی میں اس کی مدد کر سکتے ہیں تو ہم بلا جھجک پوچھیں گے کیونکہ پاکستان بھی افغانستان میں ہونے والے تشدد سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔اور اسی وجہ سے بھارت کو افغانستان میں امن دکھتا ہے ۔ عمران خان کے اس دورے کو افغانستان اور پاکستان کی موجودہ حکومت کے درمیان بڑھتی قربت کے طور پر دیکھا گیا۔ اور یہ سوال کیا جانے لگا کہ عمران خان کی حکومت افغانستان کو انڈیا سے دور رکھنے میں کامیاب ہورہی ہے؟

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ چین نے بھی اس ماہ کے آغاز میں سلامتی کونسل کے اعلی سطح غیر رسمی اجلاس میں کہا تھا کہ بیرونی عناصر اپنے ملکی ایجنڈے کی خاطر افغانستان کے مسئلے کو استعمال نہ کریں۔ چین کا واضح اشارہ بھارت کی جانب تھا ۔ چین نے مزید کہا تھا کہ افغان عوام کی خواہش کا احترام کرنا چاہئے اور یہ یقینی بنانا چاہئے کہ امن عمل افغان زیرقیادت اور افغان ملکیت میں ہو۔ افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیتے ہوئے چینی سفیر نے کہا کہ افغان صورتحال کا خطے کے امن و استحکام پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔۔چینی سفیر نے کہا تھا کہ افغانستان کے ایک قریبی پڑوسی کی حیثیت سے ۔ چین کو پوری امید ہے کہ اس میں شامل فریقین امن مذاکرات کے ذریعے اختلافات کو ختم اور جنگ ختم کرتے ہوئے ایک ایسا موثر سیاسی حل تلاش کر سکتے ہیں جو جلد ازجلد افغانستان میں امن ، استحکام اور ترقی لائے گا۔ابھی کل افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات کا اگلا مرحلہ گھر پر ہی ہونا چاہئے۔ جبکہ ان کے ترجمان صدیق صدیقی نے ٹویٹ کیا۔ کہ ۔۔۔ افغان حکومت افغانستان کے اندر کہیں بھی مذاکرات کے لئے تیار ہے ۔۔۔ خیمے کے نیچے یا سردی میں ۔۔۔افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے عہدیداروں نے بھی مذاکرات کو گھر منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔اب دونوں فریقوں افغان حکومت اور طالبان نے کہا ہے کہ قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات 5 جنوری تک موقوف ہوں گے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ طالبان اور کابل کی جانب سے دونوں نے ٹویٹ کیا کہ انھوں نے ۔۔۔ بین الاقوامی سطح پر بات چیت کے لئے ایجنڈا آئٹموں کی ابتدائی فہرستوں کا تبادلہ کیا اور ملاقاتوں کے دوبارہ شروع ہونے پر ان کا احاطہ کیا جائے گا۔میں آپکو بتاوں افغانستان میں امن تو آکر رہے گا ۔ تھوڑی مشکلات ہوں گے ۔ کیا پتہ ابھی مزید شدت پسندی کے واقعات بھی ہوں ۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ بھارت کو یہاں ایک بار پھر منہ کی کھانی ہوگی ۔ کیونکہ اب تو طالبان کے ساتھ ساتھ افغان حکومت اور عام افغانی عوام کو بھی معلوم ہوچکا ہے کہ بھارت ان کے ساتھ کیا کررہا ہے اور انکو کس طرح استعمال کر رہا ہے ۔ افغانیوں کو پتہ چل گیا ہے کہ ان کا خیر خواہ کون ہے اور دشمن کون ہے ۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ کریڈٹ میں عمران خان کو دوں گا وہ جہاں بھی گئے اور شروع دن سے انھوں نے افغان مسئلے کا حل مذاکرات بتایا اور جب سے وہ وزیر اعظم بنے ہیں انھوں نے اس حوالے سے عملی اقدامات کیے ہیں اور پاکستان نے یہ کرکے دیکھا دیا ہے کہ وہ امن کا داعی ہے اور بھارت خون کا پیاسا اور جارحیت پسند ہے ۔

Leave a reply