ایک ایسی دنیا سماعت و بصارت کے روبرو ہے جہاں نت نئے انداز سے ایک ہی کام دہرایا جاتا ہے اور ایک ہی بات کی پریکٹس کی جاتی ہے، وہ ہے دھوکہ.
(میں اپنے قارئین پر ایک بات واضح کرتا جاؤں کہ میری تحریروں میں معاشرتی مسائل و برائیوں پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ٪100 لوگ ان برائیوں میں ملوث ہیں. بہت سے اللّٰہ کے نیک بندے خوف خدا اور انسانیت کے جذبے سے سرشار، اپنے کام کو سرانجام دے رہے ہیں.)
اکثر اوقات کچھ سوانح نظر سے گزرتے ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا. اور جن کی بنیاد پر انسان کا نکتہ نظر تبدیل ہو کہ رہ جاتا ہے. کچھ ایسی باتیں انسان کے ذہن میں نقش ہو کر رہ جاتی ہیں جو تا حیات انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پر اثرانداز رہتی ہیں.
کاروبار یا ملازمت دو طریقہ ہائے زندگی ہیں جو انسان اپنی ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کے لیے اپناتا ہے. ملازمت پر کسی دوسرے کالم میں لکھوں گا.
کاروبار سے منسلک چند احباب نے شاید سمجھ ہی یہی لیا ہے کہ جھوٹ اور دھوکہ دہی سے ہی اچھی آمدن اکھٹی کی جا سکتی ہے. کچھ آپ بیتیاں پیشِ خدمت ہیں.
ایک گارمنٹس شاپ پر جانا ہوا. اور دکان پر کھڑے سیلز مین کی ہوشیاری پر بعد میں دل ہی دل داد دیتا رہا. اور افسوس بھی ہوتا رہا. چہ جائے کہ یہ اسکے ہاتھ کی صفائی تھی مگر انفرادیت کی غلط سوچ اجتماعیت کے مکمل نقصان کی ضامن تھی.
ایک جیکٹ پسند آنے کہ چکروں میں تھی. تو سیلز مین نظروں میں ہی بھانپ گیا. اور لپک کر آیا اور کہا سر یہ تو ڈپلیکیٹ جیکٹ پڑی ہے جو آپکے "شایانِ شان” نہیں. اسی میں اوریجنل جیکٹ پڑی ہے وہ اصلی ہے. میں آپکا خیرخواہ ہوں اس لیے بتا رہا ہوں، مالک کو نا بتائیے گا.
اس ساری گیم کا تب جا کر اندازہ ہوا جب گھر جا کر مکمل تسلی سے چیک کی. تب پتہ چلا کہ "اصلی” کے چکروں میں وہی پہلے والی چند ہزار مہنگی مجھے چپکا دی گئی ہے.
ایک پھلوں والے بازار میں جانا ہوا. انواع و اقسام کے پھل سجا کر رکھے ہوئے تھے. ان دنوں آم کا سیزن چل رہا ہے. ایک طرف سے آواز کانوں میں پڑی جو انسانی فطرت کے عین مطابق گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی. ایک صاحب فرما رہے تھے کھٹے ہوں تو دوگنا پیسے واپس. میں اس دوکان پر پہنچا تو اتفاقاً آذان بھی شروع ہو گئی.
میں اکثر یہ واقعہ سوچنے یا بیان کرنے سے ڈرتا ہوں کہ اس وجہ سے ملتِ اسلامیہ اور امتِ محمدیہ کا دوسرے لوگوں پر کیا تاثر جائے گا.
خیر دکان دار کے کلمہ پڑھ کر آذان کی طرف متوجہ کر کے تسلی نے مجھے وہاں سے خریدنے پر مجبور کیا. خراماں خراماں رہائش پر پہنچا. مبالغہ آرائی سے خدا بچائے، مگر ان کلو دو کلو میں سے ایک بھی کھانے قابل آم برامد نہ ہو سکا.
مزید سنیے، کپڑوں کی دکان پر ایک اچھی کوالٹی کا سوٹ خریدنے پر بھی اسی طرح کی چرب زبانی اور ملے جلے قسموں وعدوں کے عوض چند ہزار کا چونا لگوانے کے بعد جب پہلی بار کپڑے دُھل کر سامنے آئے تو کپڑوں اور میرا دونوں کا رنگ اُڑ چکا تھا.
اور سنیں، موٹر-سائیکل مکینک پر مکمل اعتماد ہونے کی وجہ سے اپنا موٹر-سائیکل مرمت کے لیے چھوڑ کر اپنے کسی اور کام کو مکمل کرنے کے لیے دوسری مارکیٹ چلا گیا. ارادہ تھا کہ واپسی تک موٹر-سائیکل مرمت ہو چکا ہو گا. اس بات کا اندازہ چند دن بعد ہوا جب کہیں جاتے ہوئے موٹر-سائیکل پنکچر ہوا اور پنکچر والے نے میرے سامنے ٹائر کھول کر نسبتاً طنزیہ انداز میں کہا "بادشاہو، اور کتنا ظلم کرنا ہے اس پر، اب نئے ٹیوب ڈلوا لیں”. جبکہ ابھی چند دن پہلے ٹائر اور ٹیوب نیا ڈلوایا جا چکا تھا.
مجھے یہ سمجھنے میں ذرا سی ہی دیر لگی چند دن پہلے مرمت کے دوران سامان نکالا جا چکا ہے.
ایسے کئی اور مواقع انسان کی زندگی میں آتے ہیں جن سے گزرنے کے بعد انسان سوچتا ہے کہ شاید ہم کرونا سے بھی کسی بڑی وبا کے انتظار میں ہیں. اور اس بات کا پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ دنیا چند ایک ایماندار لوگوں کی وجہ سے قائم ہے. ورنہ ہم نے کوئی کثر نہیں چھوڑی.
ضرورت اس امر کی کے انفرادی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اجتماعی طور پر سوچا جائے. ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دی جائے. اور اپنے امیج سے زیادہ اس بات کو سوچا جائے کہ ہمارے کسی عمل سے ہمارا دین و مذہب بشمول ملک و قوم بدنام نہ ہو.
اللّٰہ ہمارا حامی و ناصر ہو.
Twitter : @Q_Asi07
qaisarabbas00@gmail.com