افغانستان کیا ہونے جا رہا ہے تحریر: انعم شیخ

0
53

افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد خطے کی صورتحال دن بدن گھمبیر ہوتی جا رہی ہے، زمینی حقائق دیکھیں تو طالبان نے ایک بڑے علاقے پر اپنا قبضہ جما لیا ہے جن میں کچھ ممالک کے ساتھ افغانستان کے سرحدی علاقے بھی شامل ہیں، طالبان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ان کے زیر انتظام علاقہ کا اتنی تیزی سے پھیلاؤ جہاں پوری دنیا کو محو حیرت میں ڈالے ہوئے ہے اور لوگ امریکی و اتحادی افواج کی بیس سال افغانستان میں موجودگی پر سوال اٹھا رہے ہیں وہیں افغانستان میں موجود کٹھ پتلی حکومت اور اسکے حواری شدید اضطراب کا شکار ہیں ۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پوری دنیاکی نظریں افغانستان پر جمی ہوئی ہیں اور اس خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اس خطے کے دیگر ممالک روس، چین، پاکستان، ایران ، بھارت وغیرہ کے لیئے بھی بہت اہم ہیں ۔
سب سے پہلے اگر افغانستان کی حالیہ حکومت کی بات کی جائے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ افغانستان میں موجود حالیہ حکومت جس میں اشرف غنی اور ان کی ٹیم شامل ہے کو افغانستان کے لوگوں کی بجائے امریکہ و بھارت کی سپورٹ حاصل رہی ہے، یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں نے اپنے اقتدار کے دوران افغانستان کے اندرونی مسائل اور لوگوں کی فلاح کی بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے اور امریکہ اور اتحادیوں کے ساتھ ساتھ بھارت کو افغانستان کی سرزمین سےہر طرح کے وسائل نکالنے میں ہر ممکن مدد کی جس کی وجہ سے افغانستان میں اس حکومت کی مقبولیت بہت کم ہے۔ اس حکومت نے افغان طالبان کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے ان کو افغانستان کے کسی بھی مسئلہ میں سٹیک ہولڈر ماننے سے انکار کرتے ہوئے کسی بھی قسم کے مذاکرات کی نفی کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اب طالبان کی جانب سے ابھر کر طاقتور طریقہ سے سامنے آنے پر افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کے حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے ، پہلے یہ لوگ اتحادی افواج کے انخلاء کے خلاف تھے اور اپنے ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیئےاشرف غنی اور انکی ٹیم نے امریکی دربار پر حاضری بھی دی تھی جو بے سود رہی اور حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ انکل ٹام نے بھی ہاتھ اُٹھا لیئے ہیں۔
افغانستان میں حالیہ واقعات کے بعد بھارت اس وقت سب سے ذیادہ پریشان ہے کیونکہ بھارت کی اربو ں ڈالر کی انویسٹمنٹ جو اس نے افغانستان میں اپنے پنجے گاڑنے کے لیئے کی، وہ داؤ پر لگی ہوئی ہے، بھارت کو طالبان کی پیش قدمی کے ساتھ مختلف شہروں اور علاقوں سے اپنے قونصل خانے بھی اٹھانے پڑ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بھارتی "اثاثے” جوافغانستان میں موجود تھے ان کو بھی ساتھ ساتھ باہر نکالنا پڑ رہا ہے، یاد رہے کہ بھارت نے افغانستان میں ترقی کے منصوبوں کی آڑ میں ایسے منصوبے شروع کر رکھے تھے جن کی وجہ سے بھارت بالواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان میں بد امنی پھیلا رہا تھا۔
اب اگر تھوڑا سا زوم آؤٹ کر کے دیکھا جائے تو اس وقت طالبان کے ساتھ افغانستان میں امن کے خواہشمند ممالک میں چین، روس، پاکستان، ترکی اور ایران وغیرہ شامل ہیں جبکہ دوسری جانب افغان کٹھ پتلی حکومت اور بھارت اس وقت ایک صفحہ پہ موجود ہیں اور امریکہ اور اتحادی افواج کوبھارت اور افغانستان قائل کرنے کی کوششیں ضرورکررہے ہیں کہ افغانستان میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنی موجودگی رکھیں لیکن پچھلے بیس سال وہ ممالک اپنے اربوں ڈالر اس جنگ میں جھونکنے کے بعد فی الحال بالکل بھی اس موڈ میں نظر نہیں آ رہے کہ افغانستان میں مزید ”انویسٹمنٹ” کریں۔
اب اگر مختصرا افغانستان کے مستقبل کی بات کی جائے تو ایسا نظر آ رہا ہے کہ طالبان کو کسی بھی قسم کی ذیادہ مشکلات کے بغیر پورے افغانستان کا کنٹرول مل جائے گا لیکن طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے حالیہ انٹرویو دیکھیں جس میں وہ بارہا اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ طالبان افغانستان میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر یقین رکھتے ہیں اور اس کام کے لیئے انہوں نے واحدشرط رکھی ہے کہ اشرٖ ف غنی مستعفی ہو اور اس کے بعد طالبان اورافغانستان کی سیاسی جماعتیں بیٹھ کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے، یاد رہے کہ اشرف غنی کے استعفیٰ کا مطلب بھارت کے آخری مہروں میں سے ایک اور کی چھٹی ہے اور اشرف غنی کی کابینہ میں اس وقت بہت سے لوگ موجود ہیں جو بھارت سے ذیادہ بھارت کی زبان بو ل رہے ہے۔
اگر بات کی جائے افغانستان حکومت اور بھارت کی تو وہ اس وقت پاکستان میں بد امنی کی سازشوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی طاقتوں سے رابطے کر کے اس بات کی یقین دہانی کروانا چاہ رہے ہیں کہ اشرف غنی اوراس کی کابینہ افغانستان کےپر امن مستقبل کا واحد حل ہے جو کہ بالکل غلط اور من گھڑی کہانی ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضرور بنتا ہے کہ افغاستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نےلندن میں ایک ملاقات کی ہے، اس افغان عہدیدار کے بارے میں بتاتے چلیں کہ اس سے پاکستان اپنے سفاررتی تعلقات منقطع کر چکا ہے کیونکہ اس نے چند ماہ پہلے پاکستان کے بارے میں ایک غیر اخلاقی اور غیر سفارتی زبان کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو ایک ایسی جگہ سے تشبیہ دی تھی جہاں سے عموما شریف لوگوں کا گزر نہیں ہوتا۔ اس رویہ کے بعد پاکستان اس افغان عہدیدار سے سفارتی مراسم ختم کر چکا ہے۔ حمد اللہ محب نے پاکستان کے سزایافتہ وزیر اعظم جس کو اب عدلیہ اشتہاری بھی قرار دے چکی ہے سے لندن میں ملاقات کی ہے،اس ملاقات میں کیا بات ہوئی ہو گی؟ بھارتی ”اثاثے” مل بیٹھ کر کیا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟ عمران خان کی قیادت اور پاکستانی قومی سلامتی کے اداروں کے مستقبل کے فیصلوں سے ملک دشمن عناصر کو کیا کیا تکالیف ہیں اور مستقبل قریب میں پاکستان کے خلاف کون کونسے نئے محاذ کھلنے والے ہیں ۔ ان تمام باتوں کا ذکر ابھی قبل از وقت سہی لیکن ایسا نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی نئی سازش بنی جا رہی ہے اور حالیہ ملاقاتیں اور بیانات بشمول افغان سفیر کی بیٹی کے اغواء کا ڈرامہ کسی بڑی سازش کا حصہ ہیں۔

Leave a reply