انسان کیا ہے؟ :تحریر مبین خان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

یاایہا الناس انتم الفقراءالی اللّٰہ واللّٰہ ھو الغنی الحمید (فاطر: ١٥)
”لوگو! تم ہی اللہ کے محتاج ہو، اللہ ہی ہے جو بے نیاز ہے اور آپ اپنی ذات میں حمد کے لائق“۔

عزیز دوستوں!۔
فقر بندگی کا ایک زبردست موضوع ہے۔ بلکہ فقر ہی بندگی ہے۔ انسان کیا ہے؟ محتاجیوں اور ضرورت مندیوں کا مجموعہ۔ اپنی یہ حقیقت پہچاننا، اس کا اعتراف اور احساس کرنا بندگی کا ایک زبردست عمل ہے۔ دوسری طرف اللہ کو ہر ضرورت سے بے نیاز اور ہر نقص سے مبرا جاننا اور یوں اللہ کو خود اس کی ذات میں قابل ستائش مان کر اس کی حمد کرنا عبادت کی ایک اعلیٰ صورت ہے۔

ان دونوں باتوں میں براہ راست تعلق ہے۔ جس قدر انسان اپنے فقر اور احتیاج کا احساس کرتا ہے اتنا ہی وہ اللہ کی بے نیازی کا معترف ہوتا اور اس کی مطلق حمد کا دم بھرتا ہے۔ جس قدر وہ اللہ کے غنی اور بے نیاز ہونے کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے اتنا ہی وہ اپنی اور سب مخلوق کی اللہ کے آگے محتاجی اور ضرورت مندی کا معترف ہوتا ہے اور اسی قدر اس پر خالق اور مخلوق کی حقیقت کا یہ فرق واضح ہو جاتا ہے۔ نہ صرف خالق اور مخلوق کا یہ فرق ظاہر ہوتا ہے بلکہ خالق اور مخلوق کا یہ تعلق بھی واضح ہوتا ہے۔ ایک بے نیاز اور دوسرا اس کامحتاج۔ ایک غنی اور دوسرا اس کے در کا فقیر۔

چنانچہ آدمی کا اپنے آپ کو فقیر اور محتاج جاننا اور اللہ کے غنی اور بے نیاز ہونے کا معترف ہونا ایک محنت طلب کام ہے اور دل کا ایک مسلسل عمل۔

البتہ انسان بہت جلد بھول جانے والا ہے۔ اِس کی ضرورت پوری ہو تو یہ اپنا فقر بھول جاتا ہے۔ اس کی مراد برآئے تو یہ اپنی یہ حقیقت کہ یہ محتاجیوں کا مجموعہ ہے اس کی نگاہ سے ہی روپوش ہو جاتی ہے۔ ایک شکم سیر کو ’بھوک‘ کا تصور کرنا بہت ہی دشوار ہو جاتا ہے۔ پیٹ بھرا نہیں کہ ضرورت مندی کا تصور ہی چلا گیا! اب جب تک دوبارہ بھوک نہیں لگتی یہ بھلا چنگا ہے! یہ لمحہء حاضر کا اسیر جاہل محظ ہے ظلوم اور جہول۔ تب اس میں تونگری اور بے نیازی آتی ہے جو کہ دراصل اللہ کی صفت ہے اور صفتِ بندگی کے سراسر منافی۔ انسان کا بے نیاز ہونا اور اپنے آپ کو غیر ضرورت مند جاننا دراصل اپنی اوقات بھول جانا ہے۔ یہ دہری جہالت ہے۔ ایک اس کا اپنے آپ کو محتاج نہ جاننا او دوسرا کسی مہربان کے ہاتھوں اپنی ضرورت پوری ہو جانے کو بے نیازی کے مترادف جان لینا۔ جو اپنی صفت سے ناآشنا رہے وہ اللہ کی معرفت بھی کبھی نہیں پاتا۔ اپنی ’بندگی‘ اور ’عاجزی‘ سے ناواقف اللہ کی ’خدائی‘ اور ’بے نیازی‘ کا کیونکر معترف ہوگا! ایسے آدمی کی نگاہ میں ’بندگی‘ اور ’خدائی‘ کے مابین بہت ہی تھوڑا فرق رہ جائے گا جو ممکن ہے کہ پلک جھپکنے میں جاتا رہے۔ شرک کر لینا بھی لوگوں کیلئے تبھی آسان ہو جاتا ہے۔

اسلامی عبادات ساری کی ساری دراصل اسی فقر کا اظہار ہیں۔ مخلوق کی اسی صفت کا اقرار ہیں۔ بندگی کا ہر عمل اللہ کے غنی مطلق اور لائق حمد ہونے کا اعتراف ہے۔ نماز ہے تو تب دُعا ہے تو تب۔ تسبیح ہے تو تب اور ذکر ہے تو تب۔ سب اسی حقیقت کا اعادہ ہے۔ البتہ روزہ اس حقیقت کا ایک بہت ہی منفرد اظہار ہے۔ روزہ ایک موحد کی زبان پر اس کے اس فقر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ روزہ کی صورت میں ایک موحد کا رواں رواں یہ بولتا ہے کہ وہ مجسم احتیاج ہے اور اس ذات کا سدا محتاج جو ہر عیب سے پاک، ہر ضرورت سے بے نیاز، غنی مطلق، لائق حمد اور احد اور صمد ہے اور جس کے آگے ہر مخلوق اپنی ضرورت کیلئے دست سوال درازکرتی اور ایک اسی کے فضل کے سہارے جیتی ہے اور جس کے در کا یوں محتاج ہونا کہ اس کی محتاجی اس کے ماسوا ہر ہستی سے اس کو بے نیاز کردے نہ صرف فضیلت کی بات ہے بلکہ انسان کی اصل دولت اور سرمایہء افتخار ہے۔ پس روزہ ایک انداز کی تسبیح ہے۔ یہ اپنے فقر کا بیان ہے اور خداکے بے عیب اور بے نیاز ہونے کا اقرار اور اس کے فضل کا اعتراف اور اس کی احسان مندی کا اظہار اور اس کی دین پر قناعت اور اس سے مانگنے کا ایک اسلوب۔

چنانچہ روزہ اس صفت بندگی کا اقرار ہے۔ یہ انسان کے فقر کا بیان ہے۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ بندہ بھوکا ہے _ اور بھوک بندے کی صفت ہے _ جب تک کہ اللہ اس کو نہ کھلائے اور یہ کہ پاکی اور تعریف اس کی جو اس کی اس بھوک کا علاج اپنے پاکیزہ رزق سے کرتا ہے اور یہ کہ تعریف اس کی تب بھی جب بندہ بھوکا ہو اور تعریف اس کی تب بھی جب بندہ اس کا رزق کھائے اور اس رزق سے اپنی بھوک اور پیاس بجھائے۔ سو یہ ایک بے لوث تعلق ہے۔ گو یہ ایک محتاج اور ایک غنی کا تعلق ہے اور گو یہ اس کے فضل کا ہر دم سوالی ہے مگر اس کو یہ ظرف بھی نصیب ہوا ہے کہ اِس کیلئے اُس کی تعریف کرنا کچھ پیٹ بھرنے پر موقوف نہیں! سبحان اللہ روزہ کیسی خوبصورت عبادت ہے! اللہ کی تسبیح، اللہ کی بندگی، اللہ کی حمد اور اللہ کی فرمانبرداری کچھ اِس کی شکم سیری پر منحصرنہیں۔ یہ بھوکا رہ کر بھی اس کی ویسی ہی حمد اور تعریف کرے گا جیسی کہ شکم سیر ہو کر۔

Comments are closed.