انسانی فطرت کے دو عکس…!!! تحریر:جویریہ بتول

0
72

انسانی فطرت کے دو عکس…!!!
[تحریر:جویریہ بتول]۔
انسان بڑا جلد باز،گھبرا جانے والا،تھڑدلا اور ناشکرا ہے۔
قرآن حکیم میں انسانی فطرت کے بارے میں یہ مثالیں جابجا بیان کی گئی ہیں۔
نعمتیں ملنے پر عطا کرنے والے کو بھول جانے والا ہے،
فخر و تکبر کی ردا اوڑھ کر پھولا نہ سمانےوالا ہے…
میں حسبِ معمول قرآنی آیات کا مطالعہ کر رہی تھی کہ سورۂ یونس کی آیات نے مجھے انسانی فطرت کے دو عکس دکھائے…
اللّٰہ تعالٰی نے اس فطرت کی ایک مثال ان الفاظ میں بیان کی ہے:
وَ اِذَا اََذقنَا النَّاسَ رَحمَۃً مِّن بَعدِ ضَرَّآءَ مَسَّتھُم اِذَا لَھُم مَکرٌ فِی اٰیَاتِنَا قُلِ اللّٰہُ اَسرَعُ مَکرًا،اِنَّ رُسُلَنَا یَکتُبُونَ مَا تَمکُرُون¤
"اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہوتی ہے،کسی نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چال چلنے لگتے ہیں،آپ کہہ دیجیئے کہ اللّٰہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے،بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں.”(سورۂ یونس)۔
یعنی انسان نعمت ملنے پر ناشکری کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے اور جب اللّٰہ تعالٰی کی گرفت میں آئے تو فوراً اس کی رگِ فطرت پھڑک اُٹھتی ہے۔
جس کی مثال اللّٰہ تعالٰی نے ما بعد کی آیت میں دی ہے:
کہ اللّٰہ تعالٰی نے تمہیں چلنے کے لیئے پاؤں عطا کیئے،سواریاں مہیا کی ہیں،
جن پر دور دراز کے سفر کرتے ہو،
پھر عقل کا استعمال کرتے ہوئے کشتیاں اور جہاز بنا لیئے،اور سمندر کی لہروں پر محوِ سفر ہوتے ہو…!!!
لیکن کیسی بے بسی کا عالم ہوتا ہے جب اُحیط بھم
یعنی جب سخت ہواؤں کے تھپیڑوں اور تلاطم خیز موجوں میں گھِر جاتے ہیں اور موت سامنے نظر آتی ہے تو کیا کرتے ہیں؟
دعو اللّٰہ مخلصین لہ الدین…
اس وقت خالص اعتقاد کے ساتھ اللّٰہ کو پکارتے ہیں کہ اگر تو ہم کو اس سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے۔
یعنی انسان جب شدائد میں گھِر جاتا ہے تو تب سارے فلسفے بھول کر اللّٰہ تعالٰی کو یاد کرتا ہے،اسی کو پکارتا ہے،کیونکہ انسانی فطرت میں اللّٰہ تعالٰی کی طرف رجوع کا جذبہ ودیعت کیا گیا۔
انسان ماحول اور تربیت سے متاثر ہو کر اس جذبۂ فطرت کو دبا دیتا ہے لیکن کسی ناگہانی آفت اور مصیبت میں یہ جذبہ پھر عود کر آتا ہے۔
رب کی توحید انسانی فطرت کی آواز ہے،جس سے انحراف کر کے انسان فطرت سے انحراف کرتا ہے۔
لیکن جب انسان کو اللّٰہ تعالٰی ان تمام مصائب سے بچا لے آئے تو چاہیئے تو یہ ہے کہ شکر کا مفہوم اقوال و اعمال سے بیان ہوتا نظر آئے لیکن انسانوں کی اکثریت نجات پا جانے کے بعد تکبر میں مبتلا ہو جاتی ہے…
شکر کے مفہوم و انداز سے نابلد رہ جاتی ہے۔
عکرمہ بن ابی جہل کا واقعہ کہ جب وہ فتح مکہ کے موقع پر فرار ہو کر ایک کشتی میں سوار ہوئے تو کشتی طوفانی ہواؤں کی زد میں آ گئی،ملاح نے مسافروں کو مشورہ دیا کہ اللّٰہ واحد کو پکارا، تب ہی نجات مل سکے گی…
یہ بات عکرمہ کے دل پہ لگی کہ اگر سمندر کی تُند ہواؤں میں نجات دینے والا اللّٰہ ہے تو خشکی کی مشکلات حل کرنے والا بھی وہی ہے…
اور یہی بات تو محمد رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی کہتے ہیں،چنانچہ مکہ واپس آ کر خدمتِ نبوی میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گئے تھے۔(رضی اللّٰہ عنہ)۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مومن کی مثال بڑے خوب صورت انداز میں بیان فرمائی ہے کہ:
"مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے،بے شک اس کے ہر معاملے میں اس کے لیئے خیر ہےاور یہ صرف مومن ہی کے لیئے ہے،اگر اسے خوشی پہنچے تو شکر اَدا کرتا ہے،جو اس کے لیئے خیر ہے اور اگر اُسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے،جو اس کے لیئے خیر ہے…”
(صحیح مسلم)۔
ہر حال میں اللّٰہ تعالٰی سے اُمید مومن کی صفت ہے،
نعمتیں ملنے پر شکر…
مصائب آنے پر صبر…
لیکن کہیں بھی نا امیدی،اس کے ساتھ شرک اور شکوؤں کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی…
اللّٰہ تعالٰی ہمیں بھی مومنین کی صفات سے متصف فرمائے آمین ثم آمین…!!!
ہر راحت میں تو…
گھبراہٹ میں تو…
نہیں کوئی میرا…
بس تیرے سوا…
میں جاؤں کہاں۔…؟
اے حقیقی الٰہ…!!!
جب جب بھی پکارا…
تو نے ہر کام سنوارا…
ملی فطرت کو تسکین…
اور جھکی یہ جبین…
جھکی رہے یہ سدا…
جب آئے بُلاوا ترا…
تو راضی ہو مُجھ سے…
مجھےمعرفت ہو تُجھ سے…!!!
یہی تو ہے مقصدِ ایماں…
یہی ہے بندگی کا ساماں…!!!
==============================

Leave a reply