ایران جوہری معاہدہ: ایرانی ،یورپی اور امریکی نمائندے ویانا پہنچ گئے

ویانا: ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدے پر ایرانی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ علی باقری جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات کے سلسلے میں ویانا روانہ ہو گئے، جہاں وہ آج اہم ملاقاتیں کریں گے۔

باغی ٹی وی :ترجمان ایرانی دفتر خارجہ ناصر کنعانی نے اس بارے میں بدھ کے روز کہا مذاکراتی ٹیم کے سربراہ علی باقری عالمی طاقتوں پر ایران کا مؤقف واضح کریں گے اور ایرانی تصورات بھی پیش کیے جائیں گے۔


ایرانی ترجمان نے یہ بھی کہا یورپی یونین کےنمائندہ اینرک مورا بھی ویانا پہنچ رہے ہیں دونوں مذاکرات کار 7 برس قبل ہونے والے جوہری معاہدے کی بحالی کے سلسلےمیں ابتدائی بات چیت کریں گے وہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایک کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں-

چین نے تائیوان کی متعدد غذائی مصنوعات کی درآمدات معطل کر دیں

اینرک مورا نے روانگی سے متعلق اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ہم ویانا مذاکرات کے لیے آسٹریا حکام کے شکرگزار ہیں انہوں نے کہا کہ ویانا جاتے ہوئے میں ایران کے ساتھ ماضی میں ہونے والے پلان آف ایکشن’ ہماری کوشش ہےکہ کوآرڈینیٹرز کی طرف سے20 جولائی کو پیش کیے گئے مسودے کی بنیاد پر پورا عمل درآمد کیا جائے۔

ایران کے لیے امریکی خصوصی ایلچی رابرٹ میلے کا کہنا ہے کہ امریکا معاہدے تک پہنچنے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ کوشش کررہا ہےایران کی اس سلسلے میں دلچسپی بہت جلد واضح ہو جائے گی۔ رابرٹ میلے بھی مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے ویانا پہنچ رہے ہیں۔

اُدھر روسی ایلچی میخائل اولیانوف نے مذاکرات کی بحالی سے متعلق کہا ہے کہ جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن کی بحالی جلد دوبارہ شروع ہوگی۔ فریقین پانچ ماہ کے بعد ویانا واپس آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے روس بھی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے تعمیری بات چیت پر تیار ہے۔

امریکا نے سعودی عرب اور یو اے ای کو میزائل ڈیفنس سسٹم فروخت کرنے کی منظوری دے دی

خیال رہے ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا پچھلا دور ماہ جولائی کے دوران دوحہ میں ہوا تھا۔ ایران نے امریکا کےساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کر دیا تھا اس لیے مورا نے ہی دوحہ میں امریکہ کی طرف سے ایران کےساتھ بات چیت کی تھی۔

ان بالواسطہ مذاکرات کا اسلسلہ دو روز جاری رہا تھا مگر کوئی نتیجہ سامنے نہ آیا تھا۔ امریکا اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ گذشتہ تقریبا ایک سال سے جاری ہے تاکہ 2015 میں ہونے والے معاہدے کی بحالی ممکن ہو جائے۔

اس سے قبل ایران امریکا بات چیت ماہ مارچ کے دوران اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے تھے جب ایران کا اصرار تھا کہ ایرانی حمایت یافتہ تنظیم کو دہشت گرد تنظیم کی فہرست سے نکال سکا ۔ یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں 2019 کے دوران کیا تھا۔

2015 میں ہونےوالے معاہدے کے نتیجے میں امریکا نے ایران سے بہت ساری پابندیاں اٹھا لی تھیں۔ لیکن 2018 میں امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو ایرانی جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا اور ایران پر پابندیوں کا نئے سرے سے اطلاق کر دیا تھا۔

امریکا نے روسی صدر کی "گرل فرینڈ” سمیت دیگراہم روسی شخصیات پر نئی…

Comments are closed.