ایران میں پھر سے خونریز احتجاج شروع ہونے پر اپوزیشن لیڈر نے کیا انتباہ کیا
باغی ٹی وی : ایران کے ایک محقق اور اپوزیشن شخصیت نے زور دے کر کہا ہے کہ 15 نومبر کو ایران کے مختلف شہروں میں پانچ روز تک جاری مظاہرے اقتصادی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر ایک بار پھر "مزاحمتی تحریک” کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔
بیرون ملک اپوزیشن جماعت "ڈیموکریٹک فرنٹ” کے سکریٹری عباس خرسندی نے میڈیا کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ "2017 میں ہونے والے عوامی احتجاج کے بعد ایران میں مظاہرین کو سڑکوں پر موت کے گھاٹ اتارا گیا اور جیلوں میں تشدد کے ذریعے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ملک میں گذشتہ ماہ ہونے والے عوامی احتجاج کے دوران بھی اسی طرح ہوا”۔
خرسندی کے مطابق عوامی احتجاج کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں مظاہرین کا بہتر معاشی حالات اور شخصی آزادی کا مطالبہ شامل ہے۔ یہ امور مستقبل میں عوامی احتجاج کو ایران میں حکمراں نظام کے خلاف حقیقی انقلاب میں بدل سکتے ہیں۔
ایرانی حکومت نے15نومبر کو پیٹرول کی قیمت میں 50 سے 300 فی صد تک اچانک اضافہ کردیا تھا۔اس اقدام کے خلاف ملک بھر میں پُرتشدد ہنگامے شروع ہوگئے تھے اور یہ ایک سو شہروں اور قصبوں میں پھیل گئے تھے۔بعض شہروں میں نقاب پوش نوجوانوں نے پیٹرول اسٹیشنوں ، بنکوں اور دوسری سرکاری املاک کو نذر آتش کردیا تھا اور ان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔
اس احتجاج میں کافی ساری ہلاکتیں ہوئی تھیں.جس میںکہا گیا تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 143 ہے۔ تقریبا تمام اموات آتشیں اسلحہ کے استعمال کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ ایک شخص آنسو گیس کی شیلنگ سے ہلاک ہوا تھا اور ایک کی موت تشدد کے نتیجے میں واقع ہوئی۔