ایرانی حکومت کا حجاب کی پابندی پر عمل کرانے والی فورس ختم کرنے کا عندیہ
تہران:ایران کی حکومت نے ملک میں حجاب کی پابندی پر عمل کرانے والی فورس ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران میں حالیہ بدامنی میں مبینہ غیر ملکی کردار کے حوالے سے تہران میں منعقدہ تقریب میں ملک پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے خواتین کے حجاب پر عمل کے لئے فورس کر ختم کرنے کا عندیہ دیا۔
کابل میں پاکستانی سفارتکار پرحملے کا ملزم گرفتار
محمد جعفر منتظری نے کہا کہ پارلیمان اور عدلیہ دونوں ہی مل کر اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں کہ کیا حجاب قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟ایرانی پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اخلاقی پولیس کا “عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے اسی جگہ سے بند کیا جارہا ہے جہاں سے اسے ماضی میں شروع کیا گیا تھا۔
ایران میں اس حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی کہ ”اخلاقی تحفظ“ کو یقینی بنانے والی اس فورس اور اس کی گشتی یونٹوں کو ختم کر دیا گیا ہے یا نہیں اس کے علاوہ محمد جعفر منتظری نے لباس کے حوالے سے ضابطوں کو ختم کرنے والے قانون کے خاتمے سے متعلق بھی کوئی اشارہ نہیں دیا۔
برادراسلامی ملک افغانستان کےبچوں کی تعلیم وتربیت کےلیےپاکستان ہرممکن تعاون جاری…
عالمی قوتوں اور بین الااقوامی اداروں نے بھی ایران کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور ایران سے مظاہرین پر تشدد کو روکنے اور قانون میں نرمی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔دوسری جانب ایران کا مؤقف ہے کہ ہمارے پاس ملک بھر میں تیزی سے پھیلنے والے ان پُرتشدد مظاہروں کو مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہونے کے ناقابل تردید ثبوت بھی موجود ہیں۔
شمالی وزیرستان میں معذوروں کا عالمی دن منایا گیا
خیال رہے کہ ایران میں حجاب قانون انقلاب کے بعد 1983 سے نافذ العمل ہے جس میں خواتین کے لیے سر اور بالوں کو ڈھانپنے والا اسکارف پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا2 ماہ قبل ایران میں مہسا امینی نامی کرد خاتون کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد ملک گیر سطح پر مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔اس قانون کے خلاف احتجاج کے دوران اب تک مبینہ طور پر سیکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں جب کہ لاتعدا افراد کو جیلوں میں ڈالنے کی اطلاعات ہیں۔