گزشتہ دنوں کچھ گھنٹوں کیلئے بڑے شہروں میں بجلی کیا گئی تھی پورے ملک کا میڈیا اور سوشل میڈیا چیخ اٹھا لیکن کیا ان بڑے شہروں میں بسنے والوں نے ان علاقوں کے بارے میں بھی کبھی سوچا ہے جہاں کئی کئی ہفتوں تک بجلی سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے جبکہ محکمہ واپڈا کے سرکاری ملازمین بجلی صارفین کی شکایت پران کا مسئلہ حل کرنے میں ہفتے لگا دیتے ہیں کیونکہ یہ محکمہ ایک ایسا سفید ہاتھی بن چکا ہے جس کی غلطی اور بدعنوانیوں کیخلاف شائد کسی میں ہمت نہیں کہ وہ برخلاف بدعنوان افسران کوئی کاروائی عمل میں لا سکے لیکن میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ صوبائی سطح کا ایک وزیر بھی اس محکمے کے آگے بے بس ہوگا۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ مقامی وڈیروں کے مظالم کیخلاف لکھنے پر جب مجھ پر ان کے لوگوں نے حملے شروع کئے تو میں نے اپنا گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ روز بروز کسی نہ کسی تنازعہ کو لیکر کبھی میرے بھائیوں تو کبھی رشتہ داروں کے ساتھ لڑائی جھگڑے جبکہ سیاسی اثرورسوخ پر ناصرف مجھے پولیس سے گرفتار کروا کر شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا بلکہ میرے بہت ہی قریبی رشتہ داروں کیخلاف بھی ٹھیک اسی طرح کے جھوٹے و من گھڑت الزامات لگا کر مقدمات درج کروائے گئے اور حوالات بند کروا کر ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے جیل ڈلوایا گیا تاکہ وہ میرے خاندان کے ساتھ غمی خوشی کا معاملہ منقطع کردیں اور میرے خاندان کو مجبور کیا جاسکے کہ میں ان کے مظالم کے خلاف بولنا بند کردوں لہذا یہ سب ہونے کے بعد میں نے سوچا کہ مجھے میرے خاندان سمیت گاؤں چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ وہ لوگ ہر لحاظ سے مجھ سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے مجھ سے جڑے لوگوں کو کوئی مزید نقصان پہنچ جائے علاوہ ازیں گاؤں چھوڑنے کی دوسری اہم وجہ ہم بہن بھائیوں کی تعلیم بھی تھی کیونکہ گاؤں میں اسکول صرف جماعت پنجم تک تھا اور اس میں بھی کئی قسم کی مشکلات تھیں جیسے کہ اساتذہ پڑھانے کیلئے بھی نہیں آتے تھے کیونکہ مقامی وڈیرے چاہتے تھے کہ یہاں کے بچے پڑھنے لکھنے نہ پائیں اور یوں سیاسی اثرورسوخ پر وہ لوگ حاضری نہ کرنے والے اساتذہ کو محکمانہ کاروائی سے بھی بچا لیتے تھے۔

بہرحال جب ہم گاؤں چھوڑ کر شہر منتقل ہوئے تو میں نے اس وقت محکمہ واپڈا (پیسکو) کو ایک درخواست لکھی جس میں آگاہ کیا گیا تھا کہ اس تاریخ سے ہمارا گاؤں والا گھر بند ہے اور ایسا نہ ہو کہ آپ جرمانہ بھیج دیں، ناصرف تحریری طور پر محکمہ کو آگاہ کیا تھا بلکہ زبانی طور پر بھی بزات خود اپنے علاقہ کے اس وقت کے میٹر ریڈر کو بھی بتایا تھا تاکہ وہ بھی لاعلم نہ رہے۔ یہاں پر ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اس کے باوجود کہ بجلی کئی کئی دنوں میں سے چند گھنٹوں کیلئے منہ دکھائی کی رسم پوری کرتی تھی پھر بھی پورے گاؤں کے اُن چند گھرانوں میں ہم بھی شامل تھے جنہوں نے بجلی کے میٹر لگوا رکھے ہیں اور باقاعدگی سے بل ادا کرتے رہے لیکن ہمارے گاؤں چھوڑنے کے کچھ ہی عرصہ بعد میرے والد کے نام پر لگے اس میٹر کے بل میں تقریبا بیس ہزار روپے سے زائد کا جرمانہ بھیج دیا گیا چونکہ اس وقت میری تعلیم بھی جاری تھی اور تعلیم کے ساتھ ایک جگہ پر کام بھی کررہا تھا تو مجھے اس وقت فوراََ وقت نہ مل سکا لہذا اگلے میں بل کے آتے ہی بڑی مشکل سے اپنے مالک سے چھٹی لے کر پیسکو آفس جا پہنچا جہاں ایک متعلقہ افسر صاحب کو شکایت کرتے ہوئے بتایا کہ اِس ایک ماہ کے اندر جرمانہ ڈبل ہوکر چالیس ہزار روپے سے زائد ہوچکا ہے اور ہم انتہائی غریب لوگ ہیں براہ کرم یہ بغیر کسی جرم کے عائد کیا گیا ہے لہذا اس کو ختم کیا جائے جس پر موصوف نے جواب دیا کہ یہ جرمانہ بجلی استعمال نہ ہونے یعنی میٹر بند ہونے یا یونٹ کم آنے کی وجہ سے لگایا گیا ہے تاہم انہیں درخواست کی نقل پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ جناب کے محمکہ کو ناصرف تحریری طور پر آگاہ کیا تھا بلکہ میٹر ریڈر کو بھی بتایا تھا کہ اب ہم شہر منتقل ہورہے ہیں لہذا آئندہ سے گھر بند ہوگا مگر یہ سب سننے کے باوجود بھی افسر صاحب نے بڑے متکبرانہ انداز میں فرمایا "اب آپ کا کچھ نہیں ہوسکتا، جائے اور بِل جمع کروائے۔”

پڑوسی کی لگی کنڈی کی وجہ سے میٹر والے گھر پر جرمانہ دے دیا گیا۔

واپڈا آفیسر صاحب کی یہ بات سن اور انداز محسوس کرکے مایوس ہوگیا کیونکہ میرے پاس اتنی وافر دولت تو تھی نہیں کہ بلاجواز جرمانہ ادا کر دیتا لہذا پھر میں نے اسے موجودہ بل جمع کروانے کی استدعا کی تو انہوں نے موجودہ بل جمع کرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ "جرمانہ سمیت مکمل بِل ادا ہوجائے گا۔” تاہم بعدازاں وقتاََ فوقتاََ جب موجودہ بِل جمع ہوجاتا تو کردیتے تھے اور نہ ہوتا تو رہنے دیتے تھے اور یوں گاؤں کے گھر کا جرمانہ بڑھتے بڑھتے اب ایک لاکھ 43 ہزار سے بھی اُوپر بڑھ گیا ہے۔

گزشتہ سال ایک دن تحریک انصاف کے ایک سینئر صوبائی وزیر سے بات ہورہی تھی تو میں نے انہیں محکمہ واپڈا (پیسکو) سے متعلق اپنا تجربہ بتایا جس کے بعد انہوں نے واپڈا بارے جو الفاظ ادا کیئے انہیں اخلاقی طور پر یہاں تحریر کرنے سے قاصر ہوں۔ جبکہ اب کئی سال بعد شہر کے گھر جو کرایہ کا ہے کے میٹر پر بھی گزشتہ دسمبر کے بل میں 46 ہزار روپے کا جرمانہ پیسکو کی جانب سے بھیج دیا گیا ہے، جسے دیکھ کر میرے ہوش اُڑ گئے اور میں یہ سوچنے لگا کہ چلو وہ گاؤں والا میٹر تو والد کے نام پر تھا جرمانہ ادا نہیں کیا تھا لیکن یہ تو کرایہ کا گھر ہے اب اگر ادھر بھی محمکہ واپڈا نے جرمانہ ختم نہ کیا تو کیا ہوگا؟ یہی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مالک مکان کی کال نے مزید پریشان کردیا جب انہوں نے میری پوری بات سنے بغیر بل میں جرمانہ بارے سن کر کہا بس اسے فوراََ جمع کروائیں کیونکہ میں نے تو آپ کو کلیئر بل دیا تھا۔

اس کے بعد میں نے میٹر ریڈر کا نمبر تلاش کیا اور انہیں مسلسل تین دن لگاتار پہلے پیغامات جبکہ بعدازاں کالز کرتا رہا تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا جسکے بعد اسلام آباد سے رات کے وقت نکلا اور صبح اپنے شہر ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ کر پیسکو دفتر جرمانے والا بل ہمراہ لے کر پہنچ گیا جہاں انہوں نے زبانی طور پر بتایا کہ آپ پر جرمانہ کنڈا یعنی بجلی چوری کرنے کی وجہ سے آیا ہے میں نے ان سے اس کا ثبوت مانگا تو انہوں نے کہا آپ کے کم یونٹ اس بجلی چوری کا ثبوت ہیں تاہم میرے ٹھوس ثبوت کے مطالبے پر وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور ان کے پاس کوئی خاطرخواہ جواب نہ تھا جبکہ میں نے انہیں گزارش کی کہ جس بنا پر میرے خلاف جرمانہ عائد کرنے کا جواز پیش کیا جارہا ہے ایک تو اس کا آپ کے پاس ثبوت نہیں اور دوسرا کنڈے پڑوسیوں نے واضح لگائے ہوئے جن کے خلاف کاروائی کے الٹا آپ میٹر لگانے والوں پر بلاجواز جرمانے دے رہے اس کے ساتھ ثبوت کے طور انہیں تصاویر بمع ویڈیوز بھی پیش کیں اور یہ بھی کہا کہ میرے ساتھ آپ لوگ ابھی چلیں میں آپ کو دیکھا سکتا ہوں کہ ابھی بھی سرعام کنڈے لگے ہوئے ہیں لیکن افسر صاحب نے مجھے شائد ٹالنے کیلئے کہا تھا کہ آپ جاؤ ہم آئندہ بروز ہفتہ 14 جنوری کو آپ کے پاس موقع پر آکر معائنہ کریں گے جبکہ حضور والا ابھی تک نیا مہینہ فروری لگ جانے کے باوجود بھی میری شکایت پر معائنہ کرنے نہیں آئے ہیں۔

خیال رہے حالیہ دنوں واپڈا اہلکار میرے قریبی محلہ میں کنڈا کے خلاف آپریشن کرنے آئے اور اس محلہ کی طرف جانے والی مین تاروں کو کاٹ دیا جبکہ میرے گھر کی گلی سے گزرے تو اظہر من الشمس لگے کنڈے نظرانداز کردیئے گئے اور چونکہ وہ گاڑی میں تھے تو علم ہونے پر گھر سے باہر نکلا اور انہیں رکنے کا اشارہ کیا تاکہ شکایت بارے دوبارہ آگاہ کروں اور لگے کنڈوں کی طرف بھی توجہ مبذول کرواؤں مگر وہ بغیر مجھے شکایت بتانے اور بجلی چوری کی نشاندہی کروانے کا موقع دیئے چلے گئے۔ تاہم بعدازاں محلے داروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس دن جو پیسکو اہلکار بجلی کی تاریں کاٹ گئے تھے وہ آج دوبارہ لگا گئے ہیں کیونکہ ان کا اصل مقصد بجلی چوری کو کرنا نہیں تھا بلکہ کچھ اور تھا.

بالآخر تنگ آکر اس مسئلہ پر متعلقہ محکمہ، وفاقی وزیر اور وزیر اعظم شہباز شریف کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک ٹوئیٹ کی جس میں مدعا بیان کیا کہ؛ "وزیراعظم شہباز شریف صاحب! آپ نے ٹھیک فرمایا تھا کہ اس ملک میں جسکی لاٹھی اسکی بھینس ہے، میں مستقل بل ادا کرتا ہوں جبکہ میرے محلہ کی اکثریت نے کنڈے لگائے ہوئے ہیں مگر شائد کنڈا کے بجائے میٹر لگوانا میرا جرم بن گیا اور پیسکو نے46529 روپے کا بل بھیج دیا جوکہ میری ماہانہ آمدن سے بھی زائد ہے۔ حالانکہ میرا سردیوں کے دوران ماہانہ بل 500 سے 1000 تک آتا رہتا ہے اور موجودہ بل تو 398 ہے لہذا اب مجھے بتایا جائے کہ میرے ساتھ یہ ظلم کیوں؟ اس سے قبل بھی میرے گاؤں والے ایک گھر جو بند ہے پر بنا کسی وجہ کے جرمانہ بھیج دیا گیا تھا جو بڑھتے بڑھتے اب ایک لاکھ سے بھی زائد ہوگیا ہے جسکی شکایت محمکہ واپڈا میں کرنے پر جواب دیا گیا کہ جرمانہ ادا کریں۔”


اس ٹوئیٹ پر مجھے کسی متعلقہ شخص یا اہل اقتدار نے تو کوئی جواب نہ دیا لیکن کچھ ٹوئیٹر صارفین نے کنڈا لگانے کا مشورہ ضرور دیا اور کچھ نے تو بنا پوری بات جانے ہی کہہ دیا کہ آپ کے بِل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بجلی چوری کرتے ہیں کیونکہ بل بہت کم ہے لہذا کم بل پر بجلی چوری کا الزام لگانے والوں کیلئے عرض ہے کہ میں اس گھر میں چند ماہ پہلے کرایہ پر مُنتقل ہوا ہوں اور اس سے قبل گھر بند تھا جسکے سبب 123 روپے تک کا بھی بل آتا رہا تھا اب چونکہ سردیاں ہیں تو بلبوں، استری اور موبائل چارج کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز زیادہ استعمال ہی نہیں ہوتی جبکہ گھر میں بھی کوئی اے سی، واٹر پمپ یا زیادہ بجلی پر استعمال ہونے والی چیز ہے نہیں اور دوسرا گھر میں شمسی سسٹم موجود ہے لہذا ہماری کوشش یہ ہوتی کہ کم سے کم بجلی کا استعمال ہو تاکہ بِل کم آئے اور سب سے اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اس گھر میں بہت کم رہتے ہیں کیونکہ میں اسلام آباد میں باغی ٹی وی سے بطور نیوزایڈیٹر منسلک ہوں تو صحافتی کام کے سلسلہ میں زیادہ تر اسلام آباد میں رہنا پڑتا ہے.

بہرحال بہت سارے لوگوں نے مجھے واپڈا سے متعلق اپنے تجربات بارے بتایا تو میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ کیا محمکہ واپڈا بذات خود بجلی چوری پر عوام کو مجبور کرتا ہے؟ تو اس کا جواب چچا رحیم (فرضی نام) نے دیا کہ جی ہاں! یہ محمکہ خود ہی عوام کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بجلی چوری کریں اور پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف آپ یا پھر میرے ساتھ نہیں ہوا کئی لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے کیونکہ کئی بجلی صارفین نے انہی بغیر جرم کے جرمانوں کے سبب تنگ آکر بجلی کے میٹر اتار کر اب براہ راست کنڈے لگادیئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں چچا رحیم نے جواب دیا کہ میں نے خود بیٹوں سے جھگڑا کرکے اپنے نام پر بجلی کا میٹر لگوایا تھا چونکہ میں اس وقت بجلی چوری کو ناصرف جرم بلکہ گناہ کبیرہ سمجھتا تھا لیکن میرے بیٹے مجھے کہتے تھے بابا میٹر نہ لگوائیں کنڈا ٹھیک لگا ہوا ہے کیونکہ کئی لوگوں نے جرمانوں کے سبب میٹر کٹوا دیئے ہیں۔ مگر میں نے ان کی ایک نہ سنی اور بجلی کا میٹر لگوا دیا جسکے کچھ سال بعد مجھے تقریبا پندرہ ہزار روپے کا جرمانہ بھیجا گیا تھا جو محمکہ پیسکو میں ایک جاننے والے اہلکار کی سفارش کے بعد ختم ہونے کے بجائے آدھا ہوگیا تو قسط کروا کر جمع کرواتا رہا لیکن اُسکی مکمل ادائیگی کے کچھ ہی عرصہ بعد دوبارہ پیسکو نے 30 ہزار روپے کا جرمانہ بھیج دیا جسکے بعد میں نے میٹر اتار کر کنڈا لگا دیا اور اب سب کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ کنڈا لگا لو مگر بجلی کا میٹر کبھی بھی نہ لگوائیں۔

آخر میں قارئین سے گزارش ہے کہ اگر کسی کے ساتھ محمکہ واپڈا یا کسی نے بھی ایسی کوئی ناانصافی کی ہے تو اس کے جواب میں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ بجلی چوری کی جائے یا غلط کام کے بدلے غیر آئینی کام کیا جائے جبکہ آئین و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے انصاف کے تقاضے کیلئے آواز بلند کی جائے اور ایسے محکموں یا بدعنوان اور ظالم افراد کو بے نقاب کیا جائے. جبکہ میری ذاتی رائے کے مطابق افسوس ہے کہ پاکستان میں اچھے لوگوں کی قدر ہے اور نہ برے کی پکڑ لہذا یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم ان تمام مسائل کا شکار اور دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہیں لیکن جہاں تک محکمہ واپڈا کی بات ہے تو اس کی بہتری کا واحد حل صرف ور صف نجکاری ہے اور اس کی زندہ مثال پی ٹی سی ایل ہے کیونکہ اب سے پہلے اس کا بھی یہی کچھ حال تھا لیکن جب سے اس کی نجکاری ہوئی ہے اب اس میں آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے.

نوٹ؛ اگر محکمہ واپڈا (پیسکو) اس پر اپنا موقف دینا چاہے تو malikramzanisra@gmail.com پر رابطہ کرسکتا ہے.

Shares: