آئین کی خلاف ورزی کے نتائج کیا ہوں گے؟ چیف جسٹس

سپریم کورٹ کا انتخابات کیس اور نئے قانون کیخلاف درخواستیں ایک ساتھ سننے کا فیصلہ
0
58
supreme

ریویو آف ججمنٹس ایکٹ کیس اور پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواستوں کا معاملہ ،سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی بینچ میں شامل تھے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس اور ریویو ایکٹ ساتھ سنتے ہیں، عدالت نے پی ٹی آئی وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے علی ظفر سے استفسارکیا کہ سپریم کورٹ نظر ثانی نئے قانون پر آپ کا کیا موقف ہے ؟علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے نظر ثانی پر نیا قانون آئین سے متصادم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا تسلسل ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس کچھ درخواستیں آئی ہیں، ریویو ایکٹ کے معاملے کو کسی اسٹیج پر دیکھنا ہی ہے،اٹارنی جنرل کو نوٹس کر دیتے ہیں، ریویو ایکٹ پر نوٹس کے بعد انتخابات کیس ایکٹ کے تحت بنچ سنے گا،

بیرسٹر علی ظفرنے عدالت میں کہا کہ عدالت پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس کا فیصلہ ریویو ایکٹ کیس کے فیصلے تک روک سکتی ہے، پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس میں دلائل تقریبا مکمل ہو چکے ہیں اسلیے کیس مکمل کر لینا چاہئے، عدالت نے کہا کہ اگر ریویو ایکٹ ہم پر لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بنچ میں دوبارہ سے دلائل کا آغاز کرنا ہو گا .عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہو چکا ہے؟ آپ بتائیں کہ کیسے ہم پر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب چاہتے ہیں نظرثانی کیس کا فیصلہ ہو، وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کیس کی سماعت ملتوی نہ کرے، نئے قانون کی شق 5 کا اطلاق پنجاب الیکشن کیس پر نہیں ہوتا ہے، مجھے امید ہے عدالت دونوں قوانین کو کالعدم قرار دے گی

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں پنجاب الیکشن کیس پرانے قانون کے تحت سنا جائے،وکیل علی ظفر نے کہاکہ جی میں یہی کہنا چاہتا ہوں کیس پرانے قانون کے تحت سنا جائے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب چاہتے ہیں کہ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ ہو الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ ان کے پاس وسیع تراختیارات ہیں اپیل کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں پنجاب انتخابات نظرثانی کیس نیا نہیں اس پر پہلے بحث ہوچکی الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل نظرثانی کا دائرہ کار بڑھانے پر تھے انتخابات نظرثانی کیس لارجر بینچ میں جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل وہیں سے شروع کرسکتے ہیں انتخابات کا معاملہ قومی مسئلہ ہے 14 مئی کے فیصلے پرعملدرآمد ممکن نہیں مگر یہ فیصلہ تاریخ بن چکا عدالتی فیصلہ تاریخ میں رہے گا کہ 90 روز میں انتخابات لازمی ہیں دیکھنا تو یہ تھا کہ کیا انتخابات کے لیے 90 روز بڑھائے جا سکتے ہیں کیا 9 مئی کے واقعات کے بعد حالات وہ ہیں جو آئین میں انتخابات میں التوا کے لیے درج ہیں؟ ہر چیز تشدد اور زورزبردستی سے نہیں ہوسکتی، کیا نو مئی کے واقعات کے بعد 8 اکتوبر کو الیکشن ہوں گے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل اس سوال کا جواب نہیں دے سکے، کیا آئینی احکامات کو پس پشت ڈالا جا سکتا ہے؟ آئین کی خلاف ورزی کے نتائج کیا ہوں گے؟ آئین پاکستان کی ایک خوبصورت دستاویز ہے،

علی ظفر نے کہا کہ 14 مئی کی رات 12 بج کر ایک منٹ پر آئین مر چکا ہے آئین کی وفات کی دو وجوہات ہیں،ایک وجہ ہے کہ 90 روز میں انتخابات کے قانون کو فالو نہیں کیا گیا،دوسری وجہ ہے کہ انتخابات کروانے کے سپریم کورٹ کے واضح حکم پر عمل نہیں کیا گیا دو صوبے جمہوریت اور عوامی نمائندوں سے محروم ہیں، کروڑوں لوگوں کا کوئی منتخب نمائندہ نہیں، مجھے لگتا ہے آئین پاکستان کا قتل ہوچکا ہے، حکومت دو تین اور تین چار کا کھیل کھیلتی رہی، ہر گزرتا دن آئین کے قتل کی یاد دلاتا ہے،اس وقت ملک کے دو صوبے جمہوریت،اسمبلی اور عوامی نمائندگی کے بغیر ہیں،اس وقت آئین پر کوئی عمل نہیں ہے ،وزیراعظم ، چیف جسٹس پاکستان سمیت سب نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے،الیکشن کمیشن کے وکیل جو بھی دلائل دیں اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی، جب ریویو ایکٹ پاس ہوا تو میں نے سینیٹ میں کہا کہ کیسے آئین سے متصادم قانون بنا رہے ہیں؟ سینیٹ سے 5 منٹ میں یہ ریویو ایکٹ پاس ہوا، بحث بھی نہیں ہوئی، عدلیہ کی آزادی سے متعلق قوانین صرف آئینی ترمیم سے بنائے جاسکتے ہیں،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یعنی آپ کے خیال میں حکومت نے آرٹیکل 184 تین میں اپیل کا حق دیا جو خلاف آئین ہے،علی ظفر نے کہا کہ جو نکات مرکزی کیس میں نہیں اٹھائے گئے وہ نظر ثانی میں نہیں لائے جا سکتے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں آرٹیکل 184 تین سے متعلق اچھی ترامیم ہیں، صرف ایک غلطی انہوں نے یہ کی کہ آرٹیکل 184 تین پر نظر ثانی کو اپیل قرار دے دیا،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک بات اچھی ہوئی کہ حکومت اور اداروں نے کہا عدالت میں ہی دلائل دیں گے جو قانونی ہیں، ورنہ یہ تو عدالت کے دروازے کے باہر احتجاج کر رہے تھے، اس احتجاج کا کیا مقصد تھا؟
انصاف کی فراہمی تو مولا کریم کا کام ہے، آپ یہ کہ رہے ہیں کہ اپیل کو نئے قانون میں نیا نام دیا گیا؟ علی ظفر نے کہا کہ نظر ثانی اور اپیل دونوں قانون میں الگ الگ چیزیں، آئن کے برخلاف جا کر ایک قانون میں رویو کو اپیل بنا دیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کو محدود کر دیا گیا ہے 184(3) پر، 14مئی کو انتخابات کا فیصلہ کو اب واپس لانا ممکن نہیں انتخابات تو نہیں ہوئے لیکن ہم نے اصول طے کردیے کن حالات میں انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں اور کن میں نہیں

سپریم کورٹ نے انتخابات کیس کی سماعت 13 جون تک ملتوی کردی ،عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیا ،سپریم کورٹ نے انتخابات کیس اور نئے قانون کیخلاف درخواستیں ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا،عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا ،عدالت نے صدر مملکت کو بذریعہ پرنسپل سیکر ٹری نوٹس جاری کر دیا،وزارت پارلیمانی امور اور سیکرٹری سینٹ کو نوٹس جاری کر دیا گیا، عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی

عابد زبیری نے مبینہ آڈیو لیک کمیشن طلبی کا نوٹس چیلنج کردیا

آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کر دیا

سردار تنویر الیاس کی نااہلی ، غفلت ، غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری کھل کر سامنے آگئی 

عدالتی نظرثانی ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا

Leave a reply