بریکنگ نیوز: اسرائیل نے پاکستان کو تسلیم کر لیا

بریکنگ نیوز: اسرائیل نے آج پاکستان کو تسلیم کرلیا ہے اس کا اعلان اسرائیلی وزیر خارجہ نے اس سے قبل پارلیمنٹ میں کیا تھا-

باغی ٹی وی : اسرائیل پاکستان تعلقات ان دو طرفہ تعلقات کو کہا جاتا ہے جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان اور یہودی مملکت اسرائیل کے درمیان میں رہے ہیں۔ یہ تعلقات غیر تسلیم شدگی سے لے کر سوویت افغان جنگ کے دوران میں قریبی تال میل تک ہر دور میں بدلتے رہے۔ ان دونوں مملکتوں کا قیام نظریاتی قرار دادوں پر مبنی رہا ہے اور دونوں ہی ریاستیں برطانوی سلطنت سے آزاد ہو کر وجود میں آئی تھیں۔ درحقیقت پاکستان اور اسرائیل کے مابین حکومتی سطح پر باضابطہ تعلقات کبھی قائم نہیں ہوئے۔

تاہم اب اسرائیل نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے جس کا اعلان اسرائیلی وزیر خارجہ نے اس سے قبل پارلیمنٹ میں کیا تھا-

خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ اسرائیل کی عالمی قوانین یا عالمی معاہدوں کی پاسداری نہ کرنا ہے پاکستان کا موقف تھا کہ اسرائیل نے ماضی میں فلسطینیوں اور اس کے عرب پڑوسیوں کے ساتھ دستخط کیے ہوئے تمام معاہدوں کو توڑا ہے، اس لیے یہ توقع کرنا بیوقوفی ہوگی کہ اسرائیل پاکستان کے ساتھ کیے گئے کسی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔ اسرائیل نے تاریخی طور پر کبھی بین الاقوامی قوانین یا بین الاقوامی معاہدوں کا احترام نہیں کیا۔

کہا گیا تھا کہ فلسطین کی زمینوں پر غیرقانونی قبضے کی وجہ سے پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، اسی طرح وہ کشمیری اراضی پر بھارتی تسلط کو بھی نہیں مانتا ہے۔ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کر لینا کشمیر پر بھارتی قبضے کو اخلاقی جواز دینے کے مترادف ہو گا اور یہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے پاکستان پر اعتماد سے غداری ہو گی۔

پاکستان اور اسرائیل تعلقات:
وکی پیڈیا کے مطابق اسرائیل پاکستان تعلقات ان دو طرفہ تعلقات کو کہا جاتا ہے جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان اور یہودی مملکت اسرائیل کے درمیان میں رہے ہیں۔ یہ تعلقات غیر تسلیم شدگی سے لے کر سوویت افغان جنگ کے دوران میں قریبی تال میل تک ہر دور میں بدلتے رہے۔ ان دونوں مملکتوں کا قیام نظریاتی قرار دادوں پر مبنی رہا ہے اور دونوں ہی ریاستیں برطانوی سلطنت سے آزاد ہو کر وجود میں آئی تھیں۔ درحقیقت پاکستان اور اسرائیل کے مابین حکومتی سطح پر باضابطہ تعلقات کبھی قائم نہیں ہوئے۔

پاکستانی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل عرب ریاستوں سے کچھ معاہدے کر لے تو وہ اسرائیل سے علانیہ سفارتی تعلقات قائم کریں گے۔ اس کے برعکس پاکستان کے اسرائیل مخالف تنظیم آزادی فلسطین سے قریبی تعلقات ہیں، مثلاً پہلے انتفاضہ کے موقع پر پاکستان کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کاروں کے لیے رسد رسانی اور طبی امداد کا بندوبست کیا گیا تھا۔ نیز متعدد موقعوں پر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا اسرائیل کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کی بنا پر ریاست ہائے متحدہ امریکا سے کشیدگی بھی پیدا ہوئی ہے۔ جب پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کا افشا ہوا تو اسرائیل کو ہمیشہ ان جوہری صلاحیتوں سے خدشہ رہا۔ پاکستان میں بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے ان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن حکومت اسرائیل کی کچھ کلیدی شخصیتوں نے اس کی مخالفت کی جس کی بنا پر یہ حملہ نہیں ہو سکا۔

سنہ 1990ء کی دہائی میں اوسلو معاہدہ کے بعد اسرائیل کے حق میں پاکستان کا رویہ کچھ نرم ہوا اور یہودی و پاکستانی نمائندوں کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں اسرائیل کی اولین ترجیح سفارتی تعلقات کا قیام رہی، جبکہ پاکستان نے اسرائیل کے تئیں اپنی جارحانہ پالیسی کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی اہلکاروں کے مطابق ان کی اس جارحانہ پالیسی کی اصل وجہ بالعموم عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب سے اتحاد کا مظاہرہ ہے۔ پاکستان اور اسرائیل ان کے استنبول میں قائم سفارت خانوں کے ذریعے باہمی مذاکرات میں حصہ لیتے ہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ 2010ء میں ویکی لیکس کے مطابق پاکستان نے اسی استنبول میں قائم اپنے سفارت خانے کے ذریعے اسرائیل کو ایک دہشت گرد گروہ کے بارے میں معلومات فراہم کی تھی۔تاہم سنہ 2018ء تک ان دونوں ریاستوں میں سرکاری طور پر سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے اور اب تک دونوں ممالک ایک دوسرے کے دشمن تصور کیے جاتے ہیں۔

Comments are closed.