جعلی سگریٹ بنانے والی فیکٹری کے مالک کو گرفتار نہ کرنے کی بڑی وجہ سامنے آگئی

دی وائس کے زیراہتمام جعلی سیگریٹ بنانے والی کمپنی وے وارڈ کے خلاف مظفرآباد مرکزی ایوان صحافت کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ہے، مظاہرین نے پلے کارڈ اورکتبے اٹھا رکھے تھے، جن پروے وارڈ کمپنی کے خلاف انتظامیہ اورپولیس کے خلاف نعرے درج تھے، فضا نااہل انتظامیہ ہائے ہائے، دوہرا قانون نا منظور، نااہل پولیس ہاے ہاے، جعلی سیگریٹ کمپنی بند کرو بند کرو، سے گونج اٹھی ہے، اگردوہفتے کے اندربابرتاج کو گرفتارنہ کیا گیا تویہ معاملہ دی وائس کے زیراہتمام انٹرنیشنل سطح پر اٹھایا جائے گا، جعلی کمپنی کی پشت پناہی کرنے والے نوجوانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، جس پر ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے، اگرکمپنی کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی گی تو ہم پشت پناہی کرنے والوں کے ناموں کوچوکوں چرواہوں میں آویزاں کریں گے.
نوجوانوں نے چیف سیکرٹری آزاد کشمیر، آئی جی پی آزاد کشمیر، ڈی آئی جی، کمشنر مظفرآباد، ایس ایس پی مظفرآباد ڈی سی مظفرآباد کومخاطب کرتے ہوئے مظاہرین کا کہنا تھا کہ جعلی سیگریٹ بنانے والی فیکٹری کے مالک بابرتاج نامی شخص جس پرمتعدد ایف آئی آردرج ہوئی ہیں کو آج تک کیوں گرفتارنہیں کیا گیا ہے،بابر تاج اسمبلی میں کیسے پہنچتا ہے، بابر تاج کشمیر ہاؤس میں کیسے پہنچتا ہے، بابرتاج پرائم منسٹر ہاؤس کیسے پہنچتا ہے، سی سی ٹی فوٹیج پی ایم ہاؤس سے جعل ساز بابر تاج تک کیسے پہنچی ہیں، ایسے مقامات پر پولیس کی کڑی سیکورٹی ہوتی ہے پھر نامزد ملزم درجنوں ایف آئی آروالا جعل سازملزم ہرجگہ کیوں کھلے عام گھوم پھررہا ہے؟ آخر اس شخص کو اتنی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے؟‌ کیا قانون امیراورغریب کے لیے برابر نہیں ہے ، پولیس ملزم کو گرفتار کیوں نہیں کرتی اگر کرتی بھی ہے تو ایک دو گھنٹے بعد رہا کیوں کر دیتی ہے؟ اگر اس طرح کوئی اورعام شہری ہوتا تواس کوعمرقید یا سزائے موت دی جاتی، لیکن اس بااثر شخص کو گرفتار کرتے ہی کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے؟
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہماری ریاست کے اندردوہرا قانون کس لیے قائم کیا گیا ہے؟ ایک عام آدمی کواپنی ضمانتیں کروانے کے لیے مہینوں انتظارکرنا پڑتا ہے، مگراس شخص کو صرف پانچ منٹ میں رہا کردیا جاتا ہے، کیا یہ مافیا اتنا بااثر ہے اس پرپولیس بھی ہاتھ ڈالنے سے ڈرتی ہے؟ آخر اس کے پیچھے رازکیا ہے وہ عوام کے سامنے لایا جائے، اگر پی ایم ہاؤس کی فوٹیج لیک ہوسکتی ہے، اگر پی ایم ہاؤس ہی محفوظ نہیں توایک عام آدمی اپنے آپ کو کیسے محفوظ سمجھے گا؟
گزشتہ چند روز قبل بھی بابرتاج کی کمپنی میں بڑی تعداد میں شراب اوراسلحہ برآمد ہوا، لیکن کیا مجال اس کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی، ملزم بابرتاج اورکمشنرانکم ٹیکس آخردونوں پی ایم ہاؤس کیا کررہے تھے؟ دونوں کے درمیان جب ہاتھا پائی ہوئی پولیس ہونے کے باوجود اس ملزم کوگرفتارکیوں نہیں کیا گیا تھا، عوام کو بے وقوف نہ سمجھا جائے اس کے پیچھے جن لوگوں کے ہاتھ ہیں ان ہاتھوں کو سامنے لایا جائے، ورنہ ہم اچھی طرح سامنے لانا جانتے ہیں، چند عرصہ قبل بھی اس کی فیکٹری روانی کے مقام پرانکم ٹیکس کی جانب سے چھاپہ مارا گیا ہے، جس پرجعلی سیگریٹ برآمد بھی ہوئے ہے، فیکٹری کوسیل کرنے کے احکامات بھی جاری ہوئے ہیں، لیکن کیا مجال مافیا نے اس فیکٹری کو بند کرنے دیا ہو، ہم نوجوانوں کی زندگیوں سے کھلواڑ نہیں کرنے دیں نگے، چاہئے اس کے لیے ہمیں بھی کیوں نہ تختہ دارپر لٹکا دیا جائے‌، ہمیں مجبور نہ کیا جائے ہم کوہالہ پل بند کرکے احتجاج کرینگے.
پاکستان کے مختلف تھانوں میں بھی اس جعل سازکے خلاف ایف آئی آر درج ہیں پھر بھی اس کوگرفتارنہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے، اگراس چھوٹی سی ریاست کے اندرجعلی فیکٹریاں بنای جا سکتی ہیں تو دیگرعوام کو بھی چھوٹ دے دینی چاہیے، کیوں کہ ہماری انتظامیہ اور پولیس بہت کمزورہے، یہ صرف کمزوراوربے بس کے لیے رہ گی ہے، کیوںکہ ان کے بس میں نہیں کے بااثراورامیرپرہاتھ ڈال سکے.
اس موقع پر نواجونوں ک بڑی تعداد موجود تھی، راجہ سمیع بابر، راجہ قیس قدیر، راجہ شیراز، راجہ قاسم فرید، راجہ حسنین، راجہ احسان، احمد گیلانی، عاشر قریشی، ایاز احمد،مزمل ملک، قاسم ریاض، رقیب سلہریا، راجہ زین، حق نوازسلہریا، عماد راجہ، علی راجہ، راجہ احتشام، راجہ مشائق، بلال خان، انس شمریز، ذیشان قاضی، محمد اویس، راجہ نبیل، مہدی شاہ، حنین، راجہ عاصم، راجہ ذوالقرنین، نواز احمد، صفدر راجہ، اسامہ سعید، مدثر شیخ، عمرگل حسن، ملک علیان اعوان، وغیرہ نے شرکت کی ہے.

Comments are closed.