ہمارا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں بیٹی جب باپ کے کندھے تک پہنچنے لگتی ہے تو والدین کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔
آج مہنگائی کے اس دور میں جب اخراجات میں آئے دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، تو اس ترقی یافتہ اور جدید دور میں بھی متوسط طبقہ والدین شادی بیاہ میں بیٹیوں کو بھاری بھر کم جہیز اور سونے کے زیورات دینے کی فکر میں وقت سے پہلے ہی بوڑھے ہو جاتے ہیں۔
موجودہ دور میں چند تولے زیورات کی قیمت ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے تک پہنچ گئی ہے۔
اس لیے متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے سونے کے زیورات دینا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔
مہنگائی کے اس دور میں اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح نے عام آدمی کا جینا مرنا محال کر دیا ہے۔
اور مہنگائی کے اس دور میں شادی کے اخراجات بیس، پچیس لاکھ سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔
ایسے میں والدین بیچارے بیٹیوں کی شادی کے اخراجات کے بارے میں سوچ سوچ کر ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہیز اور غیر ضروری رسموں کے سبب بابل کی دہلیز پر بیٹھے لڑکیوں کے بالوں میں سفیدی آ جاتی ہے۔
کم جہیز یا جہیز نہ دینے پر بنت حوا تشدد و جبر کا نشانہ بنتی آ رہی ہے، سسرال میں ساری زندگی طعنہ زنی کا شکار ہوتی رہتی ہے، اور کبھی تو جہیز کے نام پر قتل کر دی جاتی ہے، اور کبھی تیزاب پھینک کر جلا دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر جہیز کے خاتمے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
انہیں صرف یہی فکر رہتی ہے، کہ کسی طرح بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔
والدین بیٹی کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے جوان ہونے تک اس کیلئے جہیز جمع کرتے ہیں، تاکہ آنے والے وقت میں ان کی اور ان کی اولاد کی عزت میں آنچ نہ آئے۔
ایک زمانہ تھا جب شادی کرنا بہت آسان تھا، بیٹی کو جہیز میں دیا جانے والا سامان محض چند سکوں یا زیادہ سے زیادہ ہزاروں روپوں میں ہوتا تھا، اگرچہ مہنگائی کا اس وقت بھی رویا جاتا تھا۔لیکن اس دور میں اتنے فضول رسم و رواج نہیں تھے، جو آج کل کے دور میں والدین کے لئے وبال جان بن گئے ہیں۔
رنگ برنگے پکوان تیار نہیں کیے جاتے تھے، صرف ایک ہی کھانا بنتا تھا۔
اور بیٹی والے جہیز میں اتنا قیمتی سامان بھی نہیں دیتے تھے، جتنا آج کل لڑکی کے سسرال والے فرمائشیں کر کے مانگتے ہیں۔سادہ لوح لوگ تھے، ہر طرح کی بناوٹ سے عاری۔
والدین حسب استطاعت بیٹی کو جہیز اور زیورات دے کر خوشی خوشی رخصت کر دیتے تھے۔پرانے وقتوں میں ایک کنبہ میں درجنوں افراد کی کفالت صرف گھر کا ایک فرد جو گھر کا کفیل ہوا کرتا تھا، اس کی ذمہ داری ہوتی تھی۔اس وقت تقریباً لڑکی لڑکے کا تناسب برابر تھا جبکہ روپے پیسے کی اتنی ریل پیل نہ تھی۔
اور نہ ہی موجودہ دور کی طرح آسائشیں میسر تھی، کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی انسان کو ذہنی سکون میسر تھا۔
دور جدید میں ہر کام میں تیزی آ گئی ہے، آج جدید دور میں داخل ہونے کی وجہ سے ہم نمود و نمائش میں پڑ گئے ہیں۔ہم نے بہت سی غیر اسلامی اور غیر ضروری رسومات اپنا لی ہیں۔
جوں جوں بیٹیاں جوان ہوتی ہیں، انہیں دیکھ کر والدین کی کمر جکھتی جاتی ہے۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ حکومتی سطح پر بے تحاشا مہنگائی ہوئی ہے، لیکن اس کے برعکس یہ بات بھی قابل قبول ہے کہ ہم نے معاشرے میں اعلٰی مقام کی خاطر کئی فضول رسمیں اپنا رکھی ہیں۔
نفسا نفسی کے اس دور میں ہم سادگی کو بھول کر آگے نکلنے کی کوشش میں دلی سکون کھو بیٹھے ہیں۔
ہم نے یہ بات ذہن میں بٹھا لی ہے کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو شادی پر اتنا جہیز دیا ہے تو ہم کیونکر پیچھے رہیں،
دھاگہ ڈالنے والی سوئی سے لے کر گاڑی تک جہیز میں دے کر اپنی حیثیت کا لوہا منواتے ہیں۔

لڑکے والے بھی اپنا حق سمجھ کر سب کچھ رکھ لیتے ہیں، چاہے گھر میں رکھنے کے لیے جگہ ہی نہ ہو۔
ہمارا مذہب ہب اسلام بھی ہمیں سادگی کا درس دیتا ہے،اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں۔
عورت کا بہترین زیور اس کی تعلیم و تربیت ہے،
فضول رسم و رواج کو ترک کر کے ہم شادی بیاہ پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی لا سکتے ہیں۔
لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہل کون کرے گا؟

اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ امراء لوگ جنہوں نے شادی کے دنوں کو ہفتوں میں تبدیل کر دیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ غیر ضروری اور غیر اسلامی رسومات کی نفی کریں، انسان کی اصل حیثیت اس کا روپے پیسہ نہیں بلکہ اس کا کردار ہے۔جہیز سے ہٹ کر آج کل پارلر آنے جانے کے چکروں میں بھی ایک کثیر رقم ضائع کر دی جاتی ہے۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ روپے پیسے کی فراوانی اور جہیز کی زیادتی سے آپ اپنی بیٹی کی قسمت تو نہیں بدل سکتے۔لڑکی نے اپنا گھر خود بسانا ہے، اس لیے اچھی تربیت اور عادات و اطوار ہی اس کے لیے اس کا قیمتی زیور اور اثاثہ ہیں۔جسے اپنا کر وہ اپنا گھر بسا سکتی ہے، اور اسی سے ہی آگے چل کر ایک اچھا گھرانہ، اور اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
بے شک ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سادگی کو پسند فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میانہ روی کی تلقین کی۔بحثیت مسلمان ہمیں روز محشر ہر چیز کا حساب دینا ہے، یہ ظاہری نمود و نمائش کہیں ہمارے لیے باعث فخر کی بجائے باعث عذاب ہی نہ بن جائے، لہٰذا اس بارے میں ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی بیحد ضرورت ہے۔ کیوں کہ بات محض جہیز کی ممانعت پر تبصرے کرنے کی نہیں ہے، بلکہ عملی طور پر اس کا مظاہرہ کرنے کی ہے۔

@_aqsasiddique

Shares: