جہیز مانگنے والوں کے سماجی بائیکاٹ کا فیصلہ

0
69

جہیز مانگنے والوں کے سماجی بائیکاٹ کا فیصلہ

اپر چترال ،لاسپور گاؤں میں قائدین کا جرگہ ہوا جس میں جہیز مانگنے والوں کے سماجی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے

قائدین کی جانب سے جرگہ میں غیرضروری رواج ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے ،جرگے میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ شادی میں دلہن کے گھروالوں سے کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا دعوت میں کھانوں پر کم سے کم خرچہ کیا جائے گا ،شادی بیاہ پر فضول خرچی سے گریز کیا جائے گا ،جرگے میں کہا گیا کہ جہیز اور غیرضروری اخراجات کی وجہ سے لڑکیوں کی رخصتی نہیں ہو پاتیں ضلعی انتظامیہ جرگے کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے تعاون کرے ،

"جہیز "عربی زبان کے لفظ جہاز کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ جس کے معنی ہیں "سازوسامان پہنچانا” اصطلاح میں اس سے مراد وہ سازوسامان ہے جو والدین شادی بیاہ کے موقع پر اپنی بیٹی کو نقدی،کپڑوں،زیور یا سامان خانہ داری کی صورت میں دیتے ہیں۔برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں جہیز کی موجودہ رسم ہندو معاشرے کی پیداوار ہے ۔

مسلمانوں اور ہندوؤں کے آزادانہ میل جول کا عرصہ تقریباً ایک ہزار سال کا ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران ” تخم تاثیر صحبت اثر” کے مصداق مسلمانوں اور ہندوؤں نے ایک دوسرے کو بہت متاثر کیا اور ہندو معاشرے کی بہت سی بری رسومات مسلمانوں نے اپنالیں

اگر اسلامی تعلیمات کو پرکھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کو ان کے نکاح کے موقع پر بہت معمولی سامان بطورِ جہیز دیاتھا۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کےساتھ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے سے قبل حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہِ وسلم کے ساتھ ہی رہتے تھے اور ان کا اپنا کوئی گھر نہ تھا۔شادی کے بعد جب انھوں نے اپنا گھر بنایا تو اس میں گھریلو سامان کی ضرورت فطری امر تھا۔ لہذا اگر حضور نے اپنی بیٹی کو جہیز دیا تو اس سنت کا اطلاق انھی حالات میں ہوگا جن حالات میں حضور نے اپنی بیٹی کو یہ سامان دیا۔اس سے ثابت ہوا کہ لڑکی کا گھر بسانے کے لیے اسے ضروری ساز و سامان مہیا کرناسنت کے عین مطابق ہے مگر اس سلسلے میں حد سے تجاوز کرنا محض رسم پرستی اور اسراف ہے۔ اسی اسراف سے بعد ازاں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں

ہمارے ہاں آج کل یہ رسم بد اس قدر پھیل چکی ہے کہ ایک غریب شخص جو اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بمشکل پالتا ہے۔ بیٹی پیدا ہوتے ہی یہ فکر اس کے دامن گیر ہو جاتی ہے کہ خواہ جہیز کے لیے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے مگر بیٹی کی شادی کے موقع پر ساکھ قائم رہے اور برادری میں ناک رہ جائے۔ خود بھلے فاقوں کا سامنا کرنا پڑے ۔مگر بچی کا جہیز تو شان دار ہونا چاہیے۔

خصوصاً قیام پاکستان کے بعد تو یہ رسم اس قدر بڑھ گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کے لیے لوگ ہرطرح کے غیر قانونی اور ناجائز ذرائع مثلاً چوری،رشوت،سمگلنگ وغیرہ کو بھی استعمال میں لانے لگے ہیں۔ اس طرح امراء کی دیکھا دیکھی زیاده جہیز دینے کی دوڑ میں غریب اپنی غربت کی چکی میں میں پس کر رہ جاتے ہیں۔

صورت حال یہ ہے کہ بہت سے غریب گھرانوں کی شریف زادیاں شادی کی عمر ہونے کے باوجود تمام عمر گھر میں گھل گھل کر گزارنے پر مجبور ہیں کیوں کہ ان کے والدین لڑکے والوں کے حسب منشا جہیز دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔گویا یہ ایک ایسی رسم ہے کہ جس نے بہت سی بیٹیوں اور بہنوں کی زندگیاں برباد کر ڈالی ہیں ۔

22 لاکھ کا جہیز،27 تولہ سونا واپسی کی درخواست پر عدالت نے کہا کہ بتائیں لڑکی کا والد کیا کام کرتا ہے

 خاتون کو مبینہ طور جہیز نہ دینے پر زندہ جلا دیا گیا

جہیز کی ڈیمانڈ پر بیوی نے کی خود کشی، لو میرج کرنیوالے کو سنائی عدالت نے سزا

سب مان گئے، اب ہو گی ان ہاؤس تبدیلی، پہلے جائے گا کون؟ فیصلہ ہو گیا

اور حکومت شہباز شریف کے آگے جھک گئی،مدد مانگ لی

ان ہاؤس تبدیلی نہیں بلکہ نئے انتخابات، مولانا فضل الرحمان کا بلاول کو مشورہ

ان ہاؤس تبدیلی، اہم شخصیت حکومتی اراکین کی فہرست لے کر نواز شریف سے ملنے پہنچ گئی

شیخ رشید کی نواز شریف کو آفر، پی ڈی ایم سے تاریخ بدلنے کی اپیل

نواز شریف کی واپسی، شہباز شریف نے بڑا اعلان کر دیا

Leave a reply