بے نور، بے ہنگم اور بےحد جذباتی معاشرتی رویہ!! .تحریر:کرن خان

0
51
نوجوان جوڑے کو برہنہ کرنے کا کیس،ریاست کو مدعی بننا چاہئے،صارفین

پاکستان بننے کی تاریخ سے شروع کیا تو بات بہت لمبی ہو جائے گے ایک دہائی پیچھے سے شروع کرتی ہوں، مختاراں مائی کے نام سے شروع کریں تو اس معاشرے کی تہذیب، مذہب سے لگن سب کچھ ماند سا پڑا ہوا لگتا ہے۔
مختاراں مائی کو برہنہ کر کے سرِ بازار لانے والا یہی مردانہ معاشرہ ہے۔ ہماری جذباتی قوم نے کچھ دن واویلا کیا اور نئی ڈگر پر چل نکلے، پھر کہیں کسی کے چہرے پر تیزاب تو کسی وڈیرے نے کسی کی بہن کو بھائی کے سامنے ہراساں کیا۔ قوم نے پھر چند دن شورو غوغا کیا اور ہم پھر آگے کو نکلے۔
چند سالہ ننھی زینب پر بھی ہم نے بہت ٹسوے بہائے اور قانون سازی کا نعرہ مار کر جذباتی قوم کو پھر ایک سستے نشے کا ٹیکہ لگا کر سلا دیا۔
وحشی جانور جیسے معاشرے نے نشے اور جذبات سے باہر آتے ساتھ ہی ایک ماں کو اس آزاد اور مسلمانوں سے بھرے ہوئے معاشرے میں تین بچوں کے سامنے جس اذیت سے دوچار کیا کہ اس موضوع پر بولنا تو دور کی بات سوچتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت یہ باتیں ہوئیں کہ سخت قانون سازی کر کے نا مرد کرو، عمر قید یا سزائے موت جیسی سخت م، بروقت اور عبرتناک سزائیں دو تاکہ یہ معاشرہ سدھر جائے۔
پھر یہی مسلمان، برابری کے حقوق سے بھرا معاشرہ قربانی کے دنوں میں حوا کی بیٹی کے گلے پر چھری چلا دیتا ہے۔

اور پھر ہم سب شدت سے بھرے معاشرے کے افراد طیش میں احتجاج کرتے ہوئے اپنے اندر کے جانور کو کسی نئی نشے کے گولی دے کر سلانے لگ گئے، اگر اس کے لئےقانون سازی کی گئی ہوتی تو ایک ہفتہ ہونے کو ہے ابھی تک کیا تفتیش ہی چل رہی ہوتی کہ مدعی اور مدعا الیہ دونوں کو پتہ ہے کہ قاتل اور مقتول کون ہیں، اس کے باوجود کوئی سزا نہیں۔
افسوس صد افسوس اس بات پر کہ جب ایسا کوئی حادثہ رپورٹ ہوتا ہے تو ہم سب لوگ اس مسئلے میں بھی تعمیری تنقید کے بجائے تخریبی اور مفاد پرستی کی لائن بنا کر غل غپاڑہ کرنا شروع کر دیتے ہیں، مثال کے طور پر ایک طبقہ مذہب اور ایک مذہب بیزاری کے بیانات نکالتا ہے، ایک سیاسی تو ایک اختلافی نوٹ بھی مفاد کی بنیاد پر چھاپنا شروع کر دیتا ہے، کبھی بھی ہمارے معاشرے کی کسی بھی اکائی نے نہیں کہا کہ آئیں مل بیٹھ کر ایک سزاوجزا کا معیار بنائیں بلکہ سبھی اپنے اپنے تحفظ میں لگ جاتے کہ ہم تو بڑے پاک باز لوگ ہیں، کبھی مدرسوں میں ننھے بچوں سے زیادتیاں، کبھی راہ چلتی حوا کی بیٹی کے آبرو ریزی، تو کبھی زبردستی کے مذہب تبدیلی کے واقعات اور بڑے بلند و بانگ دعوے کرنے والا موم بتی مافیا۔جس کےہی ایک بڑے ہرکاروں میں سے ظاہر جعفر نامی درنگان نکل رہے اب۔ذہنی بیماری کا کسی مذہب، شخص یا طبقے سے ہر گز تعلق نہیں ہوتا یہ ایک سوچ ہے جسے باالعموم طور پر پورے معاشرے سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔

عثمان مرزا کیس، نور مقدم کیس، نسیم بی بی جسے شیر خوار بچی سمیت چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا، اس جیسے کتنے ہی ایسے واقعات ہوں گے جو حوا کی بیٹی اپنی آبرو بچانے کی آڑ میں کسی کو بتاتی بھی نہیں ہوگی، چپ چاپ سہہ جاتی ہوگی۔
قوموں کی ترقی بھی اس آڑ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہوتی، جیسے درندہ صفت ظاہر جعفر کا کہنا کہ وہ امریکی شہری ہے اسے کوئی کچھ نہیں کہ سکتا۔ اگرچہ ظاہر جعفر کے امریکی شہری ہونے کا اس کے بچ جانے سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا کیونکہ ویانا کنونشن کے مطابق استشنیٰ صرف سفارتی عملے کو ملتا ہے۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکلتی جا رہی ہے، جب تک ہم صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات اور اللہ تعالیٰ کے قرآن پاک میں دئیے ہوئے احکامات پر عمل پیرا نہیں ہونگے ان معاشرتی بیماریوں کی بنیادوں پر ہم روشن خیال اور برابری کا معاشرہ استوار نہیں کر سکتے۔
سورہ الانعام میں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اس قوم کی کبھی حالت نہیں بدلی جس نے کبھی خود ہی بدلنے کی کوشش نہیں کی۔
اب یہ ملک اور اس کی عوام کو پھر سے قانونی معاملات میں الجھا کر اک اور نیا نشہ دیا جا رہا ہوگا، اللہ کرے کہ ہماری غیرت جاگے ، ہمارا معاشرہ اپنے اندر کے درندوں کو حقیقی معنوں میں مار کر آگے بڑھے اور عورتوں کو اپنے تحفظ کے لیے کسی اور عورت مارچ کا سہارا نہ لینا پڑے، پاکستان پائندہ باد

ٹوئٹر اکاوُنٹ:
@Kirankhan9654

Leave a reply