کیسی بیماری کہ اجر بھی نہیں۔۔۔؟؟؟— از جویریہ چوہدری

قارئین!
ایک بندہ مومن کے لیئے اللّٰہ تعالی نے ہر تکلیف،پریشانی اور بیماری پر اجر رکھا ہے یہاں تک کہ اسے کانٹا بھی چبھے تو اس پر بھی اجر ہے۔
مگر یہ کیسی بیماری ہے کہ انسان اپنے آپ کو کھپا دے،گھلا دے مگر اجر بھی نہیں۔۔۔؟؟؟
کون سی ہے وہ بیماری؟
جی وہ بیماری ہے حسد کی۔۔۔!!!!
حسد کی بیماری ایک ایسی قدیم بیماری ہے جو جسم کو تیزاب کی طرح راکھ کر دیتی ہے،ڈیپریشن کا مریض بنا دیتی ہے،روگ لگا دیتی اور حسنات چھین لیتی ہے،

پرائم منسٹر مرغی پال اسکیم کا باقاعدہ آغاز، قرعہ اندازی کی گئی

سکون معدوم،
خوشیاں مفقود کردیتی ہے۔۔۔
حاسد ہمیشہ محسود سے زوالِ نعمت کا متمنی رہتا ہے اور پھر بے سکونی،عدم برداشت،رنج وکدورت،بے مقصد زندگی معمول بن جاتے ہیں۔
کوئی فلاں کے پاس بیٹھا کیوں؟
فلاں سے بولا کیوں؟
فلاں کے ہاں کیوں گیا وغیرہ۔۔۔
اور یوں حسد کرنے والا سب سے پہلے خود کو ہی مار دیتا ہے۔۔۔ !
ڈاکٹر کارل مانینگز ایک نفسیاتی معالج کا کہنا ہے کہ:
"ڈاکٹر مانینگز تمہیں اضطراب سے بچنے کے قواعد نہیں بتائے گا بلکہ ایک وحشت ناک رپورٹ دے گا کہ کیسے ہم اپنے جسموں اور عقلوں کو قلق و اضطراب،حسد،خوف اور تحقیر جیسی آفتوں سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
حاسد کی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ وہ رب کے انصاف پر شک کرتا ہے،وہ خود کو عبث تھکاتا ہے،خون جلا کر،نیند اُڑا کر خود کو تباہ کرتا ہے،
گھر ہو یا دفتر،
سکول ہوں یا ہسپتال،
جامعات ہوں یا مدارس،

4 نئی ٹیکنیکل یونیورسٹیز کے قیام کا اعلان، تبدیلی آگئی

حسد سے بندہ تب ہی محفوظ رہ سکتا ہے جب وہ "جیسا اور جسطرح "ہر حال میں الحمدللہ کی کیفیت کو اپنا لیتا ہے۔۔۔
اپنی صورت،لباس،گھر،روزگار،آسائشات کو من و عن تسلیم کر لینے پر آمادہ ہو،
اللّٰہ کی تقسیم پر راضی اور مطمئن ہو۔
کسی کے گھر،گاڑی،یا سہولیات پر نظر ہی نہ ہو۔۔۔۔
کہ یہ دنیا بہت عارضی اور ناپائدار ہے۔۔۔تو غم کیسا؟
یہاں بہت کچھ ادھورا رہ جاتا،اگر یہ سمٹ کر ایک انسان کے پاس بھی آ جائے تو بالآخر فنا ہی اس کا مقدر ہے۔
یوں سوچئے کہ بس میرے پاس جو کچھ بھی ہے،اللّٰہ نے مجھے جس قابل سمجھا اور دیا بس پرفیکٹ ہے۔۔۔ !!!
مجھے دنیا والوں سے کچھ نہیں لینا اور کچھ نہیں سوچنا۔۔۔۔
ذرا دیکھیئے!
صحابہ کرام کا دور بلاشبہ دنیا کا بہترین دور تھا اور قیامت تک کے لیئے ویسا دور دوبارہ نہیں لوٹنا،مگر ان کی زندگی کیسی تھی؟
آسانی،
سادگی،،
عدم تکلف،،،
بابرکت علم تھا اور عمل کی دولت تھی۔۔۔
متاع دنیا کم سے کم اور نتیجتاً راحت و سعادت اور اطمینان کی دولت تھی۔

صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی کی اہلیہ محترمہ بھی ڈاکٹربن گئیں

انقلاب محمدی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور میں علم وحی اور ہدایت ربانی کا عَلم جن لوگوں نے اٹھایا وہ فقیر ومحتاج تھے اور دعوت حق کی مخالفت میں پیش پیش رہنے والے رئیس اور ثروت مند مگر رضوان کن کو ملی؟
یہ حسد حق پرست فقیروں سے بھی ہوتا رہا ہے
یہ دنیوی اسباب اللّٰہ کے ہاں مچھر کے پر جتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے،
چنانچہ ان چیزوں کی چاہ میں خود کو حسد میں دھکیلنے کی بجائے اپنی زندگی میں نظم و ضبط کی عادت ڈالیئے۔
ولیم جیمس کہتا ہے:
"ہم انسان ان چیزوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں جو ہماری ملکیت نہیں ہوتیں،اور جو پاس ہوں ان کی قدر نہیں کرتے۔۔۔؟
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے۔(رواہ النسائی)
کبھی فرمایا:”لوگوں میں افضل وہ ہے جس کے دل میں بغض و حسد نہ ہو۔(ابن ماجہ)
تو سوچئے کہ اگر ہمیں حسد کا مرض لاحق ہو گیا تو پھر ایمان کی خیر منانی چاہیئے اور اگر ایمان کامل ہے تو پھر حسد کا جذبہ کبھی نہیں ابھرے گا،
کسی کا دکھ ہمارا دکھ،
کسی کی خوشی ہماری خوشی ہو گی۔۔۔
آئیے عہد کریں کہ اس تکلیف میں خود کو کیوں تڑپائیں جو ممنوع ہے،
اپنی زندگی میں جینے کا ہنر سیکھیں،
محبت،خوشبو اور پھولوں کی سوداگری کریں،
کانٹوں اور اذیتوں سے دامن چھڑا لیں اپنے حصے کا سفر طے کرتے جائیں کہ یہی سکونِ زندگی ہے۔۔۔ !اللّٰہ ہمیں اس بیماری سے بچائے جس کا کوئی اجر ہی نہیں۔۔۔۔ !!!

کیسی بیماری کہ اجر بھی نہیں۔۔۔؟؟؟
بقلم:(جویریہ چوہدری)۔

Comments are closed.