جھیل کے اس پار
عمر یوسف
رمضان المبارک کا مہینہ ابھی دو عشرے ہی مکمل ہوتا ہے کہ سب لوگ عید کی آمد کے منتظر ہوجاتے ہیں۔۔۔
ایک عجیب سی مسرت کی کیفیت چھائی رہتی ہے ۔۔۔
جونہی ذوالحجہ کا چاند نظر آتا ہے بڑی عید کے آنے کا انتظار میں طبیعت شاداں و فرحاں ہوجاتی ہے ۔۔۔۔
کسی عزیز کی شادی ہو تو لوگ پہلے ہی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور شادی آنے کی خوشی میں نہال ہوہو جاتے ہیں۔۔۔
لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ جونہی عیدالفطر آتی ہے یا عیدالضحی آتی ہے ۔۔ یا عزیز کی شادی کا دن آتا ہے تو لوگ اکتاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں ۔۔۔ یا تو سو جاتے ہیں یا ٹائم گزاری کے لیے پلاننگ بناتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ سارا دن گزرانے کے بعد دوست احباب کے پوچھنے پر یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم نے سارا دن سو کر گزار دیا ۔۔۔۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ انتظار میں ہی خوشی ہے ۔۔۔کسی کے آنے کی امید ہی راز مسرت ہے ۔۔۔ کسی چیز کو حاصل کرنے کی جستجو میں ہی مزا ہے ۔۔۔ جونہی مطلوبہ چیز ہمیں حاصل ہوتی ہے تو زندگی میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوتی بلکہ پہلے جیسے ہی لگتی ہے ۔۔۔۔
انسان سوچتا ہے کہ ڈگری حاصل کرلوں گا تو زندگی کا مطلب ہی بدل جائے گا ۔۔۔۔ ڈگری تو آگئی لیکن زندگی تو وہی سراب محسوس ہورہی ہے ۔۔۔
انسان سوچتا ہے شادی ہوجائے گی یا جاب لگ جائے گی تو زندگی جنت کی مانند ہوجائے گی ۔۔۔۔ لیکن ان چیزوں کو حاصل کرنے بعد انسان کے گمان کے مطابق حالات نہیں ہوئے بلکہ وہی پہلے جیسی زندگی مزید ذمہ داریاں لیے سر پر کھڑی ہوتی ہے ۔۔۔۔
کرنل شفیق الرحمن یاد آئے ۔۔۔ کہتے تھے ہم جھیل کے ایک کنارے پر کھڑے سوچتے ہیں دوسرا کنارا جنت نظیر ہوگا ۔۔۔ لیکن پہنچنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو خاردار جھاڑیوں پر مشتمل ہے ۔۔۔۔
اچھے خواب دیکھو کیونکہ ان خوابوں کو حاصل کرنے کا سفر انتہائی خوشگوار ہے ۔۔۔ لیکن جہاں یہ خواب مل جاتے ہیں وقتی خوشی کے بعد وہی بیزاری اکتاہٹ اور بورڈم محسوس ہوتی ہے ۔۔۔۔ لیکن کیا ہوا جو یہ منزل بوریت کن ہے ۔۔۔ تم نیا خواب دیکھو اور اس کو حاصل کرنے کا مزیدار سفر شروع کردو ۔۔۔ یو خوابوں کے حصول کے سفر میں زندگی کا سفر بھی خوشگوار ہوجائے گا۔۔۔