جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے تحریر:حیأ انبساط

ہمارا معاشرہ اس محاورے کی عملی مثال ہے کہ “جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے “ مغرب کی تقلید کرتے ہم اپنی روایات کو بھولتے جا رہے ہیں جب گھر پہ ہونے والے رنگ و روغن سے لیکر مردوں کے آفٹر شیو تک کے اشتہار میں عورت کو دیکھایا جائے تو ایسے معاشرے میں بےحیائی کا رونا اور بےراہروی کی شکایت جچتی نہیں ہے۔

‏کچھ عرصہ پہلے انسٹاگرام پہ ایک اداکارہ نے کسی کا انباکس میسچ اسکرین شاٹ لیکر اپنے اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا تھا جس میں کسی حضرت نے ایک ملاقات کیلئے لاکھوں روپے آفر کیئے تھے جس کے جواب میں خاتون اداکارہ نے کافی تلخ جواب لکھا تھا جو میں تحریر کرنے سے قاصر ہوں- حال ہی میں ان کی طرف سے ایک اور اسکرین شاٹ شائع کیا گیا تھا جس میں پہلے کی طرح نازیبا فرمائش کی گئی تھی۔

‏اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان پبلک فگرز کو اپنی مرضی سے ٹاپ لیس ، بیک لیس ، سلیو لیس پہننے میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا ؛ ان کے بقول یہ اُن کا کام ، ان کا پیشہ ہے جس کے لیئے وہ بھاری معاوضہ بھی وصول کرتیں ہیں ۔ مکمل سطر پوشی کے بارے میں بات کرنا انکے آگے دقیانوسی خیالات و روایات سمجھی جاتی ہیں اس سلسلے میں قرآن جیسی مقدس کتاب ،اللّٰہ کے احکامات کی طرف سے آنکھیں بند رکھی جاتی ہیں اور اس کے نبی کی تعلیمات کو سُنا ان سُنا کر دیا جاتا ہے تو پھر ان معمولی انسانوں کے غیر اخلاقی میسجز کو تو نظر انداز کر دینا بہت ہی آسان سی بات نہیں ؟ کیوں رائی کا پہاڑ بنایا جاتا ہے ؟

‏جب آپ خود کبھی صابن کے اشتہار میں ، کبھی شیمپو کے اور کبھی مردوں کی شیونگ کریم کے اشتہارات میں کام کرنے کے لیئے معاوضہ وصول کرتی ہیں تو یہ چھوٹی سوچ کے حامل گھٹیا لوگ بھی آپ کو اور آپ کے کام کو دیکھتے ہوئے اپنی آفرز لیئے آپ کے ان باکس میں حاضر ہوجاتے ہیں ، انہیں بھی درگزر کیجیئے نا جس طرح قرآن کے واضح احکامات کو کر دیتیں ہیں۔

‏حالیہ ایوارڈ شو میں ماڈلز کے ملبوسات کے بارے میں تو کچھ کہنے کی میری مجال نہیں کہ اگر ان کے بارے میں ایک لفظ بھی کہہ دیا جائے تو بھاری اکثریت والی آبادی ہاتھ دھو کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔ ان سیلیبرٹیز کے حق میں بولنے کیلئے تو بہت سے لوگ آجاتے ہیں ان کو ہراساں کرنے والوں کو لعن طعن کرنے والوں کی کثیر تعدار ہمیں سوشل میڈیا پہ لکھتی نظر آجاتی ہے مگر جب مختلف برانڈز کے قدآور پوسٹرز ، بل بورڈز میں آپکی تصاویر ہر چوراہے ، شاپنگ مالز کے اندر باہر آویزاں ہوں گی تو دیکھنے والے کا دل بھی مچل سکتا ہے اور جو طبقہ لاکھوں روپے افورڈ نہیں کر سکتا ان کی ذہنی گندگی ، درندگی اور زیادتی کا نشانہ مظلوم ،غریب، کم عمر بچیاں بنتی ہیں ۔

‏کبھی آپ نے سڑکوں پہ پھول بیچتی ، سگنل پہ گاڑیاں صاف کرتی بچیوں کے اوپر پڑتی لوگوں کی گندی اور کریہہ نظروں کے بارے میں سوچا ہے؟ کبھی ان معصوم ضرورت مند ، غریب بچیوں کے پیوند لگے ، گھسے ہوئے لباس سے مجبوری میں جھلکتے جسم کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہے؟ ہزاروں روپے عورت مارچ ، آزادی مارچ میں لٹانے کے بجائے ان پیسوں سے ان مستحق بچیوں کو مکمل لباس دلوانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جاتا؟ جب کوئی حادثہ رونما ہو جاتا ہے تو ایک ہیش ٹیگ کچھ دن ٹائم لائن پہ گردش کرتا دیکھائی دیتا ہے ، احتجاج کیا جاتا ہے اور افسوس یہ کہ جو محرکات ہوتے ہیں وہی احتجاج میں بھی شامل نظر آتے ہیں ۔ حکومت اور اداروں کو لعن طعن کی جاتی ہے اور میں مانتی ہوں کہ سب ٹھیک ، درست ، بجا ؛ حکومت اور ادارے ذمہ دار مگر ہم انفرادی طور پہ اس سب کو ٹھیک کرنے کیلیۓ کیا کر رہے ہیں ؟؟

‏ میں ان پبلک فگرز کی اصلاح کیلیۓ نہیں لکھتی وہ لوگ خود بہت سمجھدار ہیں ، میں تو بس اپنے ملک کے معماروں کو، آنے والی نسلوں کی آمین بچیوں کو ، ان کمسن ذہنوں کو بےحیائی سے پراگندہ ہونے سے بچانا چاہتی ہوں جو ان مغربی تہذیب کے پیچھے اندھا دھند بھاگتی ایکٹریسز کی اندھی تقلید کر رہی ہیں کیونکہ یہ ہی بچے بچیاں ہمارے ملک و قوم کا مستقبل ہیں انکی اصلاح اور بہتر تربیت ہماری اولین ذمہ داری ہے۔

‏ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرا عقیدۂ آخرت پہ کامل یقین ہے کہ اس دن ہر ایک سے اس کے اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا جو ظالم ہیں انکا کڑا احتساب بھی ہوگا ۔ عورتوں سے جب مکمل سطرپوشی کے بابت سوال کیا جائے گا تو ہو سکتا ہے ان معصوم بچیوں کو تو بحالتِ مجبوری نامکمل سطرپوشی کے معاملے میں اللّٰہ بخش دے لیکن ان خواتین کا کیا ہوگا جو جانتے بوجھتے اپنے ساتھ ۴ محرم ( باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹا) کو بھی جہنم رسید کرنے کے در پہ ہیں، یوں تو ہر انسان اپنے اعمال کا جوابدہ ہے مگر سوچیۓ گا ضرور !!

‏Twitter handle : ⁦‪@HaayaSays

Comments are closed.