جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس:استثنیٰ:اٹھنےوالےسوالات: جوابات کون دےگا:عدلیہ اداوں پرغورکرے:فوادچوہدری

0
80

اسلام آباد:فروغ نسیم نےسچ فرمایا:لوگ بھی کہہ رہے ہیں کہ”مجھّاں مجھّاں دیاں بہناں ہوندیاں نیں”:عدلیہ خوداپنےوقار کی ذمہ دار:اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے متعلق ساتھی ججز کے فیصلے پرمحتاط مگرقابل غور عرض کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرقانون ڈاکٹرفروغ نسیم نے سچ فرمایا کہ اگر جج جوابدہ نہیں تو میں اور وزیراعظم خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جوابدہ ہوں

وفاقی وزیرفواد چوہدری نے اس موقع پر کہا کہ اگریہی اندازعدل رہا تو پھرعدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، غریب اور عام شہری سوال کررہے ہیں کہ اگرججز خلائی مخلوق ہیں اور وہ قانون کے سامنے جوابدہ نہیں تو پھرسیاستدان، بیوروکریٹس اور دیگر سرکاری اور غیرسرکاری ملازمین پر کیوں عدل کی تلوار لٹکائی جارہی ہے

فواد چوہدری نے کہا کہ میں محسوس کررہا ہوں کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو استثنائی اعزاز ملنے کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہورہاہے جوآگے بڑھ کر انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے ، عدلیہ کا وقار مجروح ہوسکتا ہے ، لوگوں کاعدلیہ سے اعتماد اٹھ سکتا ہے اور یہ چیزیں عدالتی نظام کی بقا اور اس کے استحکام کے لیے انتہائی خطرناک ہیں

فواد چوہدری نے کہا کہ میں تو یہ مشورہ ہی دے سکتا ہوں کہ عدلیہ کو عالمی رینکنگ میں اپنی تیزی سےگرتی ساکھ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے

اپنے بیان میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیر قانون فروغ نسیم کا سوال اہم ہے، اگر جج صاحبان بیوی بچوں کے اثاثوں کے ذمہ دار نہیں تو سیاستدانوں، بیوروکریٹس کا احتساب کیسے ممکن ہے؟فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو عالمی رینکنگ میں اپنی تیزی سےگرتی ساکھ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جب جج جوابدہ نہیں تو میں اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جوابدہ ہوں۔

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ فل بینچ کا فیصلہ غلط اور تضادات کا حامل قرار دے دیا۔

ایک نجی ٹی وی میں‌ گفتگو کرتے ہوئے فروغ نسیم کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا، ہم جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کےمخالف نہیں، ہمارے پاس ایک معلومات آئی وہ ہم نے آگے بڑھائی۔

ان کا کہنا تھاکہ کیا مسزسریناعیسیٰ نے یہ وضاحت دی کہ پیسے کہاں سے آئے؟ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہےکہ میرا تعلق امیرخاندان سے ہے، ایف بی آرنےاپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ مسزسرینا عیسیٰ اپنے ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہیں۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے فروغ نسیم کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ درست نہیں ہے، ہمارے پاس قانونی آپشنز موجود ہیں، معزز ججز کے اختیارات سب سے زیادہ اورذمہ داری بھی سب سے زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ میں آج وزیرقانون نہیں بلکہ آزاد شہری اوربطوروکیل بات کررہا ہوں، میرا جسٹس فائزعیسیٰ سے کوئی ذاتی معاملہ نہیں ہے۔

وزیرقانون کا کہنا تھاکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی طرح دیگرسرکاری افسران بھی پبلک آفس ہولڈرز ہیں، کیا اب ڈسٹرکٹ ججز اورانتظامی افسران بھی اہل خانہ کے معاملات سے آزاد ہونگے؟ اگرایسا ہے توپھرمیں بھی کیوں اپنے اہل خانہ کے اثاثے ظاہرکروں؟

ان کا کہنا تھاکہ اگر سپریم کورٹ کا جج اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کا جواب دہ نہیں تو کیا یہ معیار دیگر سرکاری ملازمین کیلئے بھی ہوگا؟ اگر جج جواب دہ نہیں تو مثلاً میں اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جواب دہ ہوں؟

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔

سپریم کورٹ نے کیس کا مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا اور عدالت نے 9 ماہ 2 دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جب کہ فیصلہ 45 صفحات پر مشتمل ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی اور اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے اور اگرفرض کرلیا جائے تو کیا تحقیقات کرنے والوں کے اس عمل سے جسٹس فائز عیسی اور ان کی اہلیہ کے غیرقانونی اثاثوں کا کفارہ ادا ہوجائے گا ، عدلیہ کو فیصلہ دیتے وقت معاشرے ، ملک اور نسلوں کا سوچنا چاہیے تھا نہ کہ اہنے ایک ساتھی کو ریلیف دینے کی کوشش کرنی چاہیے تھی

Leave a reply