سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل معاملہ پر وفاقی حکومت نے فل کورٹ کے پانچ سوالوں کا جواب دے دیا ہے جبکہ ، جواب
میں کہا گیا کہ آٹھ رکنی بینچ کی جانب سے قانون معطل کرنا غیر آئینی تھا اور سابق چیف جسٹس نے قانون کو معطل کرکے بینچ تشکیل کرکےفیصلہ دیئے ہیں۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر قانون برقرار رہتا ہے تو ابتک کے فیصلوں کو عدالتی تحفظ فراہم کیا جائے، عام قانون سازی سے آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے، آرٹیکل 184/3 میں متاثرہ فرد کے پاس نظر ثانی کے سوا اپیل کا حق نہیں، جبکہ توہین عدالت کا آرٹیکل 204 اپیل کا حق فراہم نہیں کرتا۔

دیئے جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے توہین عدالت کیسز میں اپیل کا حق فراہم کیا، پریکٹس قانون سے عدلیہ کی آزادی کو مزید یقینی بنایا گیا ہے، قانون سے عدالتی معاملہ میں شفافیت اور بینچ تشکیل میں جموریت آئے گی، پریکٹس قانون چیف جسٹس کے امتناہی صوابیدی اختیارات کو اسٹریکچر کرتا ہے،

علاوہ ازیں کہا گیا کہ پریکٹس قانون کے تحت لارجر بینچ آرٹیکل 184/3 کے مقدمات سنے گا، مفروضہ کے بنیاد پر قانون کا کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، جبکہ مستقبل کے کسی قانون سے عدلیہ کے قانون پر قدغن آئے تو عدالت جائزہ لے سکتی ہے، لا امتناہی صوابیدی اختیار سے نظام تباہ ہوتاہے۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں مزید کمی
پی ڈی ایم پر آرٹیکل 6،جنرل باجوہ کا احتساب
امریکی وزیرخارجہ بلینکن نے بجایا گٹار
اسرائیل کو تسلیم کرنے بارے امریکہ میں بھی سوالات ہوئے,نگران وزیر خارجہ
واضح رہے کہ دیئے جواب میں موقف اختیار کیا گیا کہ قانون اس بنیاد پر کالعدم نہیں ہوسکتا ہے فل کورٹ فیصلہ پر اپیل کا حق نہیں ملے گا، فل کورٹ غیر معمولی مقدمات میں تشکیل دیا جاتا ہے، چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر ہوگا یہ کوئی طے شدہ قانون نہیں، ماسٹر آف روسٹر کی اصطلاح انڈین عدلیہ سے لی گئی ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ قانون سازی سے عدالتی فیصلوں کا اثر ختم کر سکتی ہے،۔

Shares: