آخر کب تک عورت تشدد سہتی رہے گی؟ تحریر: سحر عارف
عورت اللّٰہ تعالٰی کا سب سے انمول تحفہ ہے لیکن عورت پر تشدد ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے کبھی اس پہ جنسی تشدد ہوتا ہے تو کبھی جسمانی تشدد۔ یہ بات سرے سے سمجھ میں نہیں آتی کہ جو مرد عورتوں پہ تشدد کرتے ہیں ان کے نزدیک آخر عورت کیا ہے؟ آخر مرد کی نظر میں عورت کیا ہے؟ کیا وہ انسان نہیں؟ کیا اسے انسانوں کی طرح جینے کا حق نہیں؟ آخر کب تک عورت ظلم سہتی رہے گی؟ مرد کو اللّٰہ نے عورت سے ایک درجہ بلند اس لیے نہیں دیا کہ وہ عورت پر تشدد کر سکے بلکہ اس لیے دیا کہ وہ اپنی عورتوں کی حفاظت کرسکے۔ نکاح کی صورت میں عورت کو اللّٰہ کی امانت کے طور پر مرد کے نکاح میں دیا جاتا ہے۔ پر افسوس آج پھر جہالت اپنے قدم اٹھا رہی ہے۔ ہر سال ہزاروں عورتیں گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایک سے ایک واقعہ جو منظر عام میں آتا ہے دل دہلا دیتا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ جو کچھ روز قبل 15 جولائی کی رات قوم کی بیٹی قرةالعین کے لیے ایک بھیانک رات ثابت ہوئی۔ کوئی قیامت نہیں آئی کوئی زمین نہیں پھٹی جب چار بچوں کی ماں کو انہیں کے سامنے ان کے باپ نے کس قدر درندگی سے تشدد کر کے قتل کردیا۔ بچے سے دہائیاں دیتے رہے قوم کی بیٹی قرةالعین اپنی زندگی کے لیے گڑگڑاتی رہی اپنے شوہر سے زندگی کی بھیک مانگتی رہی پر افسوس عمر میمن جو کہ نشے کی حالت میں چور تھا کسی کی ایک نا سنی اور اپنی بیوی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قرةالعین بلوچ کی شادی 2012 میں عمر میمن جو کہ سابق سیکرٹری آبپاشی سند خالد حیدر میمن کا بیٹا ہے اس سے ہوئی۔ شادی کے ایک دو سال تک تو سب ٹھیک رہا پر پھر جیسے جیسے شادی آگے بڑھتی گئی عمر میمن اپنے بیوی بچوں پر تشدد کرنے لگا۔
مقتولہ کی بہن کا کہنا ہے کہ عمر میمن ایک شرابی ہے۔ وہ بات بات پر میری بہن کو مارتا پیٹتا اور بچوں پر بھی تشدد کرتا ان کے سر پھاڑ دیتا، ہاتھ توڑ دیتا۔ اکثر اوقات میری بہن کو مار پیٹ کے گھر سے نکال دیتا اور دوسری عورتوں کو گھر بلوا کر عیاشی کرتا۔ قاتل کے والد کو اس تمام صورتحال کا علم تھا اور وہ اکثر کہتے تھے کہ اگر میرے بیٹے کو گرفتار کروایا تو میں اسے دوبارہ باہر نکلوا لوں گا۔
15 جولائی کی قیامت خیز رات جب عینی کا قتل ہوا تو اس کی بڑی بیٹی رامین زہرہ جس کی عمر نو سال ہے اس نے اپنی ماں کا قتل ہوتے دیکھا وہ چھوٹی سی بچی جس نے اپنے ہی باپ کے ہاتھوں اپنی ماں کو قتل ہوتے دیکھا اس کے ننھے دماغ پر کتنا بھیانک اثر پڑا ہوگا۔ پر عمر میمن، انسان نما حیوان کو زرا ترس نا آیا۔ نشے سے چور جب گھر لوٹا تو جانوروں کی طرح اپنا شکار تلاش کرنے لگا۔ بیٹی کو کیا خبر تھی کہ شکار اس ماں بن جائے گی پر ہوش تب آیا جب عمر میمن کے ہاتھوں اپنی ماں کو پیٹتے دیکھا۔ بچی تھی نا رونے سسکنے کے علاؤہ کیا کرسکتی تھی۔ جیسے جیسے رات بڑھتی گئی عمر کے تشدد میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ عمر میمن نے تشدد کر کر کے جب تھک گیا تو بیوی پہ ٹھنڈا پانی ڈالنا شروع کردیا اور ٹھنڈے پانی سے بھگانے کے بعد اےسی کے نیچے پھینک دیا۔ اتنا سب کرنے کے بعد بھی جب اس حیوان کی حیوانگی ختم نا ہوئی تو آخر میں اپنے ہی بچوں کی ماں کا گلا دبا کے عینی سے اس کی سانسیں چھین لی۔ بچے خوف کی حالت میں اس بات سے بے خبر کھڑے تھے کہ ان کی ماں اب اس دنیا میں نہیں رہی۔
مقتولہ کی بہن کا کہنا تھا کہ جب ہم نے پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر کٹوانی چاہی تو پہلے پولیس نے منع کردیا اور اب جب ایف آئی آر درج ہوگئ ہے تو پھر بھی پولیس اس کو بچانے کے لیے کوشاں ہے اور وہ مسلسل اسی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ پولیس کی یہ کوشش رہی کہ جب پوسٹ مارٹم کی فائنل رپورٹ آئے تو اس میں کسی طرح ردوبدل کر کے قتل کو خودکشی کا رنگ دے دیا جائے تاکہ مجرم کو بچایا جاسکے جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ مقتولہ میں شدید تشدد ہوا تھا۔ اگر اب بھی ہم چپ کرکے بیٹھ گئے تو ہمیں انصاف نہیں ملے گا اور درندہ آزاد ہوجائے گا۔ لیکن ہم چپ کرکے نہیں بیٹھیں گے ہم انصاف کی خاطر لڑیں گے۔
اسی سلسلے میں ٹوئیٹر پر ‘جسٹس فار قرةالعین’ کا ٹرینڈ بھی چلایا گیا۔ اس کے علاؤہ مقتولہ کے لیے موم بتیاں جلا کر کئی روز تک احتجاج کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ملزم کو سخت سزا دی جائے اور عینی کو انصاف دلوائیں ٹھیک اسی طرح سوشل میڈیا پر موجود عوام نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ ملزم عمر میمن کو پھانسی دی جائے تاکہ اس جیسے باقی درندوں کے لیے سبق ہو اور دوبارہ کوئی دوسری عینی ایسی حیوانیت کا شکار نا ہو۔
ہم سب کو مل کر خواتین پر تشدد کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی، ہمیں عینی کے ساتھ ساتھ ان تمام عورتوں کی بھی آواز بننا ہوگا جو دنیا سے ڈر کر خود پہ چپ کرکے تشدد سہتی رہتی ہیں۔ اور پھر ماں باپ کو بھی چاہیے کہ اپنے والدین ہونے کا صحیح حق ادا کرتے ہوئے جب بیٹیوں کو رخصت کریں تو انھیں یہ بات ذہن نشیں کروا کے بھیجیں کہ اگر یہ انسان نما شخص جانور نکل آئے تو بغیر کسی ڈر اور خوف کے واپس چلی آنا۔ اگر ایسا ہوجائے تو یقین جانیں اس دنیا میں بہت سی عورتیں شوہر کے ہاتھوں تشدد کی وجہ سے قتل ہونے سے بچ جائیں گی کیونکہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے ماں باپ دنیا داری کا سوچتے ہوئے اور بیٹی کا گھر بسانے کی خاطر چپ سادھ لیتے ہیں اور بیٹیاں ان کی عزت کا پاس رکھتے ہوئے خود پر تشدد ہونے دیتی ہیں۔
@SeharSulehri