کامران مرتضیٰ کا سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرنے پر سخت اعتراض

kamran murtaza

جمیعت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر اور سینئر قانون دان کامران مرتضیٰ نے سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کیا جائے، تو اس کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے، ورنہ اس پر سوالات اٹھتے ہیں۔کامران مرتضیٰ نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "جب سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کیا جاتا ہے تو اس کی کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے، اگر ایسی کوئی وجہ نہیں تو پھر اس پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جسٹس امین الدین خان آئینی بینچ کے سربراہ نہیں ہیں بلکہ سینئر جج ہیں، اور یہ اصطلاح بھی خود ہم نے شامل کی تھی۔ "اگر ہم سربراہ کی اصطلاح استعمال کرنے لگیں، تو پھر عدالت کے اندر عدالت اور ریاست کے اندر ریاست کا تصور ابھرتا ہے، جو کہ ہمارے آئینی اصولوں کے خلاف ہے۔
کامران مرتضیٰ نے مزید کہا کہ ہماری تشویش یہی تھی کہ سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز نہ کیا جائے، لیکن حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ درست نہیں ہے۔” انہوں نے اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے دوران کئی مرتبہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ چیف جسٹس کے معاملات سمیت سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے ان سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ یقین دہانی اعظم نذیر تارڑ نے کرائی تھی؟ تو ان کا جواب تھا، "آپ نام کو چھوڑیں، میں نے کبھی کسی کے بارے میں اس طرح سے بات نہیں کی تھی، اور مجھے پارٹی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ بند کمروں کی باتیں باہر نہ کھل کر بیان کریں۔” کامران مرتضیٰ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ منصور علی شاہ سینئر جج ہیں اور انہیں ہی چیف جسٹس کے منصب پر مقرر کیا جائے گا۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ سنیارٹی کا اصول صرف اس صورت میں نظرانداز کیا جا سکتا ہے جب کوئی شخص سینئر ہو، لیکن اس کے پاس اس عہدے کی اہلیت نہ ہو یا اس میں دیگر خامیاں موجود ہوں۔ "اگر آپ اس اصول کو نظرانداز کرتے ہیں، تو یہ جمہوری اقدار کے خلاف ہے، اور اس سے ادارے کمزور ہوں گے۔
آئینی بینچ کی تشکیل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ "فی الحال یہ بینچ صرف 60 دن کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس بینچ پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اگر 60 دن میں بینچ کے کسی ممبر پر اعتراض آ گیا تو حکومتی اکثریت اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے فیصلہ بدل سکتی ہے۔” ان کے مطابق یہ ایک غلط رویہ ہے جو آئینی تبدیلی کے عمل کو متاثر کرے گا۔سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے بھی کامران مرتضیٰ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ "یہ فیصلہ جن اداروں کے لیے کیا گیا ہے، ان کے لیے یہ مسائل پیدا کرنے والی بات ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے نتائج آئینی اصولوں کے خلاف جا سکتے ہیں، اور یہ ملک کے اداروں کی آزادگی اور خود مختاری پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

Comments are closed.