یہ بات 1965 کی ہے جب پاک بھارت جنگ ہوئی،6 ستمبر 1965 کی صبح 9 بجے لاہور مین افواہ پھیلی کہ بھارت نے پاکستان میں حملہ کردیا ہے لیکن بعد میں پتا چلا کہ یہ افواہ نہیں بلکہ سچی خبر ہے۔
1965 کی جنگ میں جہاں دراصل کشمیر میں جنگ ہورہی تھی اور ہم لوگ کشمیر میں لڑ رہے تھے، پاکستان اندازہ بھی نہیں لگاسکتا تھا کہ بھارت کشمیر کے علاوہ پنجاب اور بالخصوص لاہور سے حملہ کرسکتا ہے، اس تلخ حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارتی فوج واہگہ کے ذریعے لاہور کے شالامار باغ تک پہنچ گئی اور ہم لوگ اس سے لاعلم تھے کہ بھارتی فوج شالامار باغ تک پہنچ گئی، تاہم جب بھارتی فوج نے دیکھا کہ یہاں تو کوئی پاکستانی فوج نظر نہیں آرہی تو انہیں خیال آیا کہ ہوسکتا یہ کوئی پاکستانی چال ہو کہ ایک دفعہ جب ہم لوگ شہر کے اندر داخل ہوں تو ہمیں چاروں طرف سے گھیر کر ہمیں تباہ کردیا جائے لیکن وہ حقیقت سے ناواقف تھے۔ خیر بھارتی فوج یہ پاکستانی چال سمجھ کر واپس بھارت چلی گئی لیکن اس بات سے انکار نہیں کہ بھارتی شالامار باغ تک ضرور آئے تھے۔
اب کچھ بات کرلیتے ہیں کشمیر کی، جب ہمارے پاس کشمیر حاصل کرنے کا بہترین موقع تھا اور ہم نے یہ موقع بآسانی گنوا دیا۔1965 کی جنگ میں جہاں ہم نے کئی بھارتی چوکیاں تباہ کیں اور کئی بھارتی فوجیوں کو مار ڈالا۔ یہ ہی نہیں ہم نے بھارتی فوجیوں کو قیدی بھی بنا کر رکھا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو 1965 کی جنگ میں ہم نے ایک طرح سے بھارتی فوجیوں کو کافی مارا اور قیدی بھی بنا کر رکھا۔ اس طرح یہ وہ موقع تھا جب ہم بھارت سے کشمیر بآسانی حاصل کرسکتے تھے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ ہماری فوج نے بھارتی فوج کو میدان میں کافی مارا اور دوسری بڑی وجہ بھارتی فوج کی چین کے ہاتھوں 1963 کی جنگ میں شکست ہے۔ 1963 میں بھارتی فوج کو چین سے بہت مار پڑ چکی تھی، یہی وجہ تھی کہ ہمارے بڑے سمجھتے تھے کہ اب کشمیر حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے اس لیے کشمیر پر چڑھائی کردی جائے، ہم لوگ کشمیر میں لڑتے رہے اور وہ شالامار سے ہوکر واپس چلے گے لیکن ہماری فوج نے بھارتی فوج کو 1965 میں خوب مارا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ موقع تھا کہ بس ہم کشمیر چھین لیتے کیونکہ نہ صرف بھارتی فوج کو چین سے شکست ہوئی بلکہ ہماری فوج نے بھی بھارتی فوج کو خوب مزا چکھایا۔ اس طرح اس چھوٹے سے دورانیے میں 2 جنگوں میں شکست کھانے کے بعد بھارتی فوج، بھارتی حکومت اور ان کی عوام کا مورال بالکل ڈاون ہوگیا تھا۔ ہم لوگ چاہتے تو کشمیر بآسانی چھین سکتے تھے۔
لیکن پھر کچھ یوں ہوا کہ ہمارے بزرگوں نے 10 جنوری 1966ء کو معاہدہ تاشقند پر دستخط کردیے۔ پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے ”معاہدہ تاشقند“ پر دستخط کئے۔ اس معاہدے کیلئے پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان 3 جنوری 1966ءکو اپنے سولہ رکنی وفد کے کیساتھ روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے‘ انکے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو‘ وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین وزیر قانون منظور قادر اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔ اس معاہدے میں ہمارے عظیم بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ کشمیر کا حل مزاکرات سے نکالا جائے گا، اور اس پر ہمارے سابق صدر ایوب خان کے دستخط موجود ہیں۔ پاکستان نے کشمیر کا حل نکالنے کیلئے مذاکرات کا راستہ اس وقت نکالا جب بھارت کو 2 جنگوں میں مار پڑ چکی تھی اور پاکستان کے پاس بھارت کے کئی فوجی قیدی بھی تھے اس طرح پاکستان چاہتا تو بآسانی اپنی ہر کوئی بات منوا سکتا تھا لیکن پاکستان نے مذاکرات کرنے کو ترجیح دی جو آج تک ہورہے ہیں۔
معاہدہ تاشقند ہی دراصل وہ معاہدہ ہے جس نے ایوب خان کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔ یہ ہی وہ معاہدہ ہے جس کی وجہ سے بھٹو نے یہ کہہ کر ایوب خان حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی کہ ایوب خان نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کرکے پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کا سودا کیا ہے۔ اور دراصل یہ ہی وہ معاہدہ ہے جس کی وجہ سے ہم لوگ اب کشمیر کبھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ضرور ہے لیکن اسے تسلیم کرلینا چاہیئے، ایک طرف بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرکے کشمیر کی نہ صرف خود مختاری ختم کی ہے بلکہ اب کشمیر کا سارا کنٹرول براہ راست بھارتی وفاق کے پاس چلا گیا ہے۔ دوسری طرف ہماری معصوم قوم 21ویں صدی میں جنگ کی باتیں کرتے ہیں جو حقیقت سے ناواقف ہیں. معاہدہ تاشقند کسی مغربی ملک کی سازش نہیں بلکہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر ہمارے صدر کے دستخط آج بھی موجود ہیں۔ اس معاہدے کو 53 سال ہوگئے ہیں اور آج 53 سال بعد بھی مذاکرات چل رہے ہیں جو شاید اب چلتے ہی رہیں گے۔