آپ کو یہ جاننے کیلئے یہودی ہونا ضروری نہیں کہ زمینی تنازعات کے باعث ملکوں کے درمیان خطرناک تشدد پیدا ہوسکتا ہے. حال ہی میں ایسا ہی مسئلہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان دیکھنے کو آیا ہے، جس سے دنیائی آبادی کا پانچواں حصہ خطرے میں ہے، اور اس مسئلہ کا حل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے.

اسرائیل بننے سے ایک سال قبل کشمیر نام کی ریاست وجود میں آئی. 1947 (کشمیر بننے کے پہلے دن) سے ہی کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ دیکھنے کو مل رہا ہے. کچھ عرصہ پہلے 5 اگست کو بھارت نے کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کرکے اس کی خصوصی حیثیت چھین لی.

 ٹرمپ نے مودی سے کیا کہا، خبر آ گئی

کشمیر ایسا نازک مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے امریکہ، اقوام متحدہ، پاکستان اور بھارت نے ہمیشہ سے ہی بہت کوشش کی ہے. اگر اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ ہمیں کچھ سکھاتا ہے تو وہ یہ ہے کہ دو ملک کبھی بھی طاقت کے ذریعے کسی بھی مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے.

دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان مسئلہ کشمیر پر بڑھتی ہوئی کشیدگی باعث خوف ہے. گزشتہ ماہ بھی جب ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان سے ملے تھے تو انہوں نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی.

اس مسئلہ پر امریکہ ایک انتہائی پچیدہ پوزیشن پر کھڑا ہے. ہم (امریکیوں) نے شروع سے ہی ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ تجارتی اور سلامتی اتحاد قائم کیے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر حل کروائے.

امریکہ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیئے کہ وہ بھارت کو اس بات پر راضی کرے کہ کشمیر سے فوری طور پر کرفیو ہٹائے، کیونکہ ایسا کرنے سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم ہوسکتی ہے. دیرینہ بین الاقوامی معاہدوں کا احترام ہوگا اور مذاکرات کی گنجائش پیدا ہوگی۔

ٹرمپ مودی کی تعریف نہیں ، تضحیک کر رہا ہے، آخر بھارتی میڈیا کو بھی پتہ چل ہی گیا

مزاکرات کا سب سے زیادہ فائدہ ان 12 ملین کشمیریوں کو ہوگا جو اس وقت کشمیر میں‌ بھارتی دہشتگردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں. ان کشمیریوں کی حالت زار پر توجہ دی جانی چاہئے اور اقوام متحدہ جیسے متعدد بین الاقوامی ادارے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اس مسئلہ کے حل کیلئے کوشش کرنی چاہیئے.

اسرائیل فلسطین کے مسئلہ کو بھولنا نہیں چاہیئے. کشمیر کا مسئلہ بھی اتنا ہی سنگین ہے، زمین کا یہ ٹکڑا بین الاقوامی تنظیموں، خاص طور پر اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہا ہے. پچھلے کچھ عرصہ میں امریکہ اسرائیل کی بہت زیادہ مدد کر رہا ہے، اور کوشش کر رہا ہے کہ خطہ میں امن قائم ہو. اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو جنگ بھی ہوسکتی ہے.

کشمیر سے متعلق سوال پر ٹرمپ نے کیا جواب دیا؟ جان کر ہوں حیران

کشمیر کی طرح اسرائیل اور فلسطین کی صورتحال بھی "حل” ہونے سے بہت دور ہے اور دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی کسی نقطہ نظر پر نہیں مل رہا. اس کے باوجود خطے میں امن مزاکرات سے ہی ممکن ہوگا. دونوں فریقوں کے درمیان یہ مسئلہ غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے ہی حل ہوگا. اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو بات جنگ کی طرف بھی جاسکتی ہے.

دونوں ملکوں کو مسئلہ کے حل کیلئے صدرٹرمپ کی پیشکش کو فوری طور پر قبول کرنا چاہئے. سب سے پہلے موجودہ بحران کو ختم کیا جائے، پھر اس کے بعد باقاعدہ طور پر مزاکرات کیے جائیں. امریکہ جس نے شروع سے ہی دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کے حل کیلئے کوشش کی ہے، اب بھی تاریخی کردار ادا کرنا چاہیئے. ایٹمی جنگ اس مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتی.

نوٹ: یہ کالم جیک روسن نے امریکی ادارے "دی واشنگٹن ٹائمز” میں‌ لکھا ہے.

Shares: