مظلوم کشمیری، لاک ڈائون اور کورونا .تحریر: محمد مستنصر

0
61

یوں تو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر ہندو تسلط اور جبر کا آغاز 1925 سے ہی ہوگیا تھا جب 77 فیصد مسلم اکثریتی آبادی والے علاقے پر ہندو راجہ کو بطور حکمران مسلط کر دیا گیا تھا جس کے کچھ عرصہ بعد ہی سراپا احتجاج کشمیری مسلمانوں کی طرف سے آزادی کی تحریک کا آغاز ہوا جس کو دبانے کے لئے 1930 سے لیکر آج تک ہندوئوں کی طرف سے نہتے اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم وستم کا ہر حربہ آزمایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرادادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کو حق خود ارادیت سے محروم رکھنے کے ساتھ گذشتہ سات دہائیوں کے دوران کشمیری مسلمانوں کے لئے ہر دن مشکل ترین ثابت ہوا۔ بھارتی قابض فورسز کی طرف سے عورتوں کے ساتھ ذیادتی، کشمیری نوجوانوں کا قتل عام، پیلٹ گن کے ظالمانہ استعمال سے بچوں کو نابینا کیا جانا اور بوڑھوں کی بے حرمتی تو معمول کی بات تھی ہی تاہم گذشتہ دو سالوں کے دوران جس طرح مودی سرکار نے کشمیری مسلمانوں کو اذیت اور دکھ درد میں مبتلا کررکھا ہے اسکی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ دنیا کے مہذب معاشرے تو اپنی حکومتوں کی طرف سے کورونا وائرس کے پیش نظر 2020 کے اوائل میں لاک ڈائون کا شکار ہوئے تاہم کشمیری مسلمان جہاں ایک طرف اگست 2019 سے مودی سرکار کے ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے کرفیو، انٹرنیٹ کی بندش، ہسپتالوں کی بندش، انسانی حقوق کی خلاف ورذیوں سمیت لاک ڈائون کا شکار تھے تو وہیں کورونا وبا کے پیش نظر لگائے جانیوالے لاک ڈائون کی وجہ سے مظلوم کشمیری دوہری پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی پہلے ہی کمی تھی اور میڈیا رپورٹس کے مطابق 3 ہزار 8 سو 66 شہریوں کے لئے صرف ایک ڈاکٹر تعینات تھا جبکہ دوسری طرف مودی سرکار کی طرف سے کشمیریوں کی زندگی مشکل بنانے اور انہیں بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے لئے 14 لوگوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات کیا گیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 18 مارچ 2020 کو سامنے آیا جب ایک خاتون میں مہلک وائرس کی موجودگی پائی گئی جس کے بعد سے اب تک کورونا وائرس کے 3 لاکھ 20 ہزار سے زائد کیس سامنے آچکے ہیں جبکہ 43 سو سے زائد اموات بھی ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔ ذرائع آمدورفت اور انٹرنیٹ کی بندش کے باعث جہاں عام شہریوں، ڈاکٹرز اور طبی عملے کو کورونا وبا سے بچائو کے حوالے سے تازہ ترین معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہا۔ کورونا وبا کے دوران جہاں دنیا کے باقی ممالک میں صحت کے حوالے سے جدید ترین سہولیات کی فراہمی پر کام کی رفتار کو تیز تر کر دیا گیا وہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات ہی نہ ہونے کے برابر تھیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں 27 ہزار مریضوں کے لئے اوسطا ایک انتہائی نگہداشت کا بیڈ فراہم تھا جبکہ مقبوضہ وادی کے صرف ایک ضلع میں چار لاکھ مریضوں کے لئے 6 وینٹی لیٹرز فراہم کئے گئے تاہم طبی عملہ تربیت یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ وینٹی لیٹرز بھی استعمال میں نہ لائے جا سکے۔ کورونا وائرس کے پیش نظر جب بھارت میں صورتحال تشویش ناک ہوئی تو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی صحت کے شعبے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو آکسیجن گیس کی فراہمی معطل کر دی گئی جس کا خمیازہ مظلوم کشمیریوں کو ہی بھگتنا پڑا۔ کورونا وائرس نے پہلے سے تباہ حال مقبوضہ وادی کی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا،

لاک ڈائون، کرفیو، ذرائع آمدو رفت کی بندش کے باعث مقبوضہ وادی میں سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر رہی جس کا براہ راست منفی اثر عام کشمیریوں کی معاشی حالت پر پڑا۔ اعداد وشمار کے مطابق جولائی تا ستمبر 2020 صرف 525 سیاحوں نے مقبوضہ وادی کا رخ کیا جبکہ اگست اور ستمبر 2019 میں 14 ہزار 6 سو سیاح جنت نظیر وادی پہنچے یاد رہے کہ یہ تعداد سال 2018 کے مقابلے میں 90 فیصد کم ہے۔ کورونا وبا کے دوران جہاں باقی دنیا میں بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے آنلائن کلاسز کا سلسلہ شروع ہوا وہیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش اور مخصوص علاقوں میں صرف 2G انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کے باعث جہاں آنلائن کلاسز کی صورت میں تعلیمی سرگرمیاں جاری نہیں رہ سکیں وہیں "ورک فرام ہوم” کی سہولت سے بھی عام کشمیری محروم رہے۔ مظلوم کشمیریوں کے لئے کورونا لاک ڈائون کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ آزادی کے متوالے کشمیری مسلمان گذشتہ سات دہائیوں سے بھارتی ظلم و جبر سہہ رہے ہیں تاہم ہر کشمیری نوجوان، بوڑھے، بچے اور خاتون کا حوصلہ ماند نہیں پڑا۔ کشمیری مسلمان آج بھی پر امید ہیں کہ کل کا سورج آزادی کی نوید لیکر طلوع ہو گا اور انہیں بھارتی تسلط سے جلد نجات ملے گی۔

@MustansarPK

Leave a reply