کشمیریوں کا سکندر – سکندر حیات خان تحریر : تابش عباسی

0
63

آج کی تحریر ارض وطن ، کشمیر کے اس بیٹے کے نام جس کو دنیا سردار سکندر حیات خان کے نام سے جانتی تھی – جس کا نام ہی ” حیات ” ہو اس کے نام کے ساتھ مرحوم لکھتے وقت ہاتھ اور بولتے وقت زبان ساتھ چھوڑ جاتی ہے-

سردار سکندر حیات احمد خان یکم جون 1934 کو کشمیر کی ایک مشہور سیاسی گھرانے ، سردار فتح محمد کریلوی کے گھر پیدا ہوئے -آپ کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل نکیال سے تھا ۔

سردار سکندر حیات خان صاحب نے ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں کریلہ اور کوٹلی سے ہی حاصل کی – آپ نے 1956 میں گارڈن کالج راولپنڈی سے گریجویشن مکمل کی اور 1958 میں وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور کا انتخاب کیا –

وکالت کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد واپس کوٹلی تشریف لائے اور بار کونسل کے صدر بھی منتخب ہوئے -1972 میں پہلی مرتبہ ممبر قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر منتخب ہوئے اور وزیر مال بنے –

1970 سے لے کر 2001 تک سردار سکندر حیات خان صاحب ہمیشہ الیکشن جیت کر اپنے حلقے سے ممبر قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر منتخب ہوتے رہے – ایک دو مواقع پر آپ ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب نہ ہوئے کیونکہ آپ آزاد کشمیر کے صدر کے عہدے پر فائز تھے- اس دوران آپ کے بھائی سردار محمد نعیم انتخابی سیاست میں حصہ لے کر ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوتے رہے -1985-90 اور 06-2001 کے دو ادوار میں وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر منتخب ہوئے-

آپ پوری عمر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ساتھ ہی منسلک رہے پر 2011 میں جماعت کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن (آزاد کشمیر) بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا- مگر ایک بات ، جس کا گلہ سردار سکندر حیات خان صاحب کے اکثریتی کارکنوں کو تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر ، سردار سکندر حیات خان صاحب کو وہ عزت ، وہ مقام ، وہ رتبہ نہ دے سکی جو سردار صاحب کے شایان شان تھا ۔فروری 2021، میں سابق وزیراعظم آزاد کشمیر و قاہد مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان نے دھیرکوٹ کے ایک جلسہ میں دعویٰ کیا کہ ” انشاء اللہ ، اپنی زندگی میں مجاہد اول سردار عبد القیوم خان صاحب والی مسلم کانفرنس کو بحال کروں گا ” – اس دعویٰ میں پہلا قدم ، سردار سکندر حیات خان صاحب کی مسلم کانفرنس میں واپسی کی صورت میں تھا – سردار سکندر حیات خان صاحب نے جماعت میں واپسی کا کریڈٹ چیئرمین یوتھ ونگ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سردار عثمان علی خان کو دیا اور عثمان علی خان کی سیاسی تربیت کی کھل کر تعریف بھی کی -سردار سکندر حیات خان صاحب کی مسلم کانفرنس میں واپسی کے اعلان کے بعد ، سردار سکندر صاحب کے صاحبزادے سردار فاروق سکندر ( جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کی حکومت میں وزیر مال تھے) نے والد کے فیصلے کی تائید کی اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں واپسی کا فیصلہ کیا اور اپنی رکنیت سازی کی تجدید کی –

سردار سکندر حیات خان صاحب کے دور حکومت میں آزاد کشمیر میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے جن کی مثال آج بھی کہیں کہیں ہی ملتی ہے – آزاد کشمیر میں سڑکوں کا جال بچھایا ، تعلیمی اصلاحات پر کام کیا اور سب سے بڑھ کر مجاہد اول سردار عبد القیوم خان صاحب کے دست و بازو بن کر "کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے خوب جدوجہد کی-

نہ صرف آزاد کشمیر ، بلکہ پاکستان کے سیاستدان بھی سردار سکندر حیات خان کی سیاسی بصیرت کے مداح تھے – بھٹو دور ہو یا ڈکٹیٹرشپ ، میاں صاحب ہوں یا بی بی شہید ، پرویز مشرف ہو یا کوئی بھی سیاسی حریف و حلیف ، سردار سکندر حیات خان صاحب سب کے ساتھ ان کے انداز سے چلنا جانتے تھے – پر جہاں مزاحمت کی ضرورت پڑی ، وہاں تاریخ نے دیکھا کہ سردار سکندر حیات خان ایک سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے-

9 اکتوبر 2021 ،کو سردار سکندر حیات خان صاحب کی جب کوٹلی میں وفات ہوئی تو پورے دنیا میں پسنے والے کشمیری بالخصوص جبکہ ان کے سیاسی پیروکار بالعموم افسردہ تھے – کشمیری قوم تو ابھی سید علی گیلانی صاحب و شیخ تجمل صاحب کا دکھ نہ بھولی تھی کہ سردار سکندر حیات خان صاحب بھی داغ مفارقت دے گئے – شاید اسی موقع کے لیے شاعر نے کہا تھا کہ

کوئی روکے کہیں دست اجل کو

ہمارے لوگ مرتے جارہے ہیں

سردار سکندر حیات خان صاحب کی وفات پر ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو آنسو بہاتے اور غمگین دیکھا- سردار سکندر حیات خان صاحب کی تدفین ان کے والد محترم سردار فتح محمد کریلوی کے پہلو میں کریلہ کے مقام پر کی گئی -اللہ تعالیٰ سردار سکندر حیات خان صاحب کی بخشش و مغفرت فرمائیں اور تحریک کشمیر و تحریک تکمیل پاکستان کے لیے ان کی جدوجہد و محنت قبول فرمائیں – بیشک ، سکندر صدیوں میں ہی پیدا ہوا کرتے ہیں اور مستقبل قریب میں ایسا کوئی سیاسی لیڈر ، کم ازکم آزاد کشمیر میں تو موجود نہیں جو کہ سردار سکندر حیات خان صاحب کا متبادل ہو سکے – یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سردار سکندر حیات خان صاحب کی وفات ، ایک سیاسی کارکن یا لیڈر کی نہیں بلکہ سیاست کی ایک چلتی پھرتی یونیورسٹی کی وفات ہے-

Leave a reply