بچوں کی تربیت میں والدین و اساتذہ کا اولین فریضہ تحریر: خالد عمران خان

0
43

بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر اُنہیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ اور قوم وجود میں آتی ہے، اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ بچپن کی تربیت نقش کالحجر ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبلوغت کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوںگے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔
تربیت‘‘ ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے، اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت، پھر ان قسموں میں بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں۔ ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد وغرض‘ عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے۔بنیادی طور تربیت کی دو اقسام ہیں 1-ظاہری تربیت اور 2- باطنی تربیت

ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول ،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش وغیرہ کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔

ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنہیں اُبھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔

بچوں کی تربیت میں اساتذہ کا کردار

جس طرح رزق کا دانہ پانی ہوتا ہے اسی طرح علم کا بھی دانہ پانی ہوتا ہے یہ جس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے یہ اس کو مل کر رہتا ہے ۔ اگر سیکھنے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو جس استاد کے ساتھ نصیب جڑا ہو وہ استاد اچھا بھی لگتا ہے اور اس سے سیکھنے والا اس سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ بعض اساتذہ بچوں کے لیے آئیڈیل ہوتے ہیں لیکن ہر استاد بچوں کے لیے آئیڈیل نہیں ہو سکتا۔ ایک بچے کی نظر میں بعض اساتذہ کی مثبت تصویر ہوتی ہے اور بعض کی منفی۔ ایک اچھے استاد کو پڑھانے کا شوق ہوتا ہے اسے ناصرف اپنی بات کی سمجھ ہوتی ہے بلکہ اپنی بات کو سمجھانا بھی آتا ہے۔ایک استادکی تربیت بچے کی زندگی کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی تبدیلی رسول پاک ﷺ سے آئی،آپﷺاستاد تھے ۔آپﷺ کی شان ہے کہ آپﷺ نے ان لوگوں کے کردار کو بدل دیا جو بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ آج انہیں لوگوں کا ادب سے نام لیا جاتا ہے اور انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہا جاتاہے ۔آج ہر کوئی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قدموں کی خاک بننا چاہتا ہے یہ ایک استاد کا کمال تھا ۔مائیکل ہارٹ جب “The Hundred” کتاب لکھتا ہے تو حضور اکرمﷺ کے نامِ مبارک کو پہلے نمبر پر رکھتا ہے۔ تاریخ میں بڑی بڑی تبدیلیاں اساتذہ کی وجہ سے آئی ہیں یہ ان کے کردار ہی تھے جو تبدیلیوں کے باعث بنے۔ایک بندے کا ویثر ن ہوتا ہے اور پورا زمانہ بدل جاتا ہے ایک اقبال ؒ کا خواب ہوتا ہے اور پاکستان بن جاتا ہے ۔
استاد کاایک پیکج ہوتا ہے اس کی ایک متاثرکن شخصیت ہوتی ہے۔اس میں اخلاقیات ہوتی ہیں۔اس میں برداشت ہوتی ہے۔ اس میں ظرف ہوتا ہے۔ اس کے پاس علم ہوتا ہے۔ اپنے مضامین پر عبور ہوتا ہے۔ اس کو انسانی نفسیات کا اور انتھرا پالوجی کا پتا ہوتا ہے۔وہ انسانی مزاج سے واقف ہوتا ہے۔اسے علم ہوتا ہے کہ کن بچوں کو دیکھنے سے سمجھ آتی ہے کن کو سننے سے سمجھ آتی ہےاور کن کو محسوس کرنے سے سمجھ آتی ہے۔ اس کی شخصیت سے لوگوں کو فائدہ ملتا ہے اشفاق احمد فرماتےہیں” شخصیت کے چبنے والی خامیوں کو گول کریں تا کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے اور وہ خوبیاں جن سے دوسروں کو فائدہ ہو ان کو پالش کریں ۔” استاد ایک اچھا موٹیویٹر اور کونسلر ہوتا ہے اس کی باتیں سن کر لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آتی ہے اور وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہےحضرت مولانا روم ؒ کے آخری ایام میں کسی نے آپؒ سے کہا کہ” آپ تو رخصت ہو رہےہیں” آپؒ نے جواب دیا ” نہیں میں دنیا کی مسند سے اتر کر لوگوں کے دلوں کی مسند پر بیٹھنے جا رہا ہوں ۔”
استاد کا سب سے بڑا اور سب سے مقدس فرض یہ ہے کہ وہ بچے کو زندگی کر کڑے امتحان کے لیے تیار کرے۔ اس کے لیے نہایت ضروری ہے کہ بچے کی علمی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی عملی زندگی پر بھی نظر رکھی جائے جس کے لیے اساتذہ کو والدین کی مدد اور ان کے اشتراک و تعاون اور ان کے ساتھ رابطہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سکول میں اساتذہ بہت تھوڑے وقت کے لیے بچوں سے ملتے ہیں جس کےباعث بچے استاد سے مکمل طور پر بے تکلف نہیں ہوپاتےلہذا ان کی پوری زندگی استاد کے سامنے بے نقاب نہیں ہوسکتی۔

انسان ایک سماجی حیوان ہے مل جل کر رہنا اس کی فطرت میں ہے۔ انسان کی معاشرتی زندگی بہت پہلے شروع ہوئی اور اس کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب انسان نے آنکھ کھول کر یہ دیکھا تھا کہ وہ انفرادی طور پرآفات ارضی و سماہی سے نپٹنے کے قابل نہیں ہے۔انسان کی گروہی جبلت نے اسے سمجھایا کہ تنہا رہنے میں نقصان اور مل جل کر رہنے میں فائدہ ہے اور یوں معاشروں کی تشکیل ہوئی۔

اختتام میں یہ باور کروانا ضروری ھے کہوالدین اوراساتذہ کے مقدس فرائض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کو معاشرتی زندگی کا درست تصور دیں اور ا نہیں معاشرے کا احترام کرنا سکھائیں۔ ہمارے کچھ افعال تو محض انفرادی ہوتے ہیں لیکن کچھ کا اثر بالواسطہ یا بلاواسطہ ہمارے ارد گرد کے لوگوں پر پڑتا ہے، یعنی ہمارے بعض افعال اجتماعی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ سماجی نفسیات اس چیز کی متقاضی ہے کہ بچے کی گروہی جبلت کی درست تربیت کی جائے تاکہ وہ اپنے اردگرد کی دنیا کے ساتھ صحیح طریقے پر ہم آہنگ ہوسکے اور بڑا ہوکر ایک کامیاب شہری بن سکے۔
Written By : Khalid Imran Khan
Twitter ID :@KhalidImranK

Leave a reply