خاندانی نظام کا بگاڑ اور بچاؤ۔ تحریر: نصرت پروین
گزشتہ دنوں مشہور اداکارہ (صدف کنول) نے اے آروائی کے ایک پروگرام میں ازواجی زندگی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ کہ شوہر کو شوہر سمجھیں اور ایک درجہ اوپر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں میاں کلچر ہے۔ میں نے شادی کی ہے میں اپنے شوہر کے جوتے بھی اٹھاؤں گی ان کے کپڑے بھی استری کروں گی اور ان کے کھانے پینے کا خیال بھی رکھوں گی۔انہوں نے کہا کہ وہ عورت کو مظلوم نہیں مضبوط سمجھتی ہیں۔ اس کے بعد سے فیمنزم لبرل مافیا کی طرف سے انہیں کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی کردار کشی کی گئی کیونکہ انہوں نے فیمنسٹس کی طرح "میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ لگا کر اپنا جسم غیر محرموں کو دکھانے کے گھناؤنے فعل سے انکاری ہو کر اچھی بیوی بننے کی کوشش کی۔ اب ان لبرل انٹیوں کی بات کرتے ہیں۔ یہ مذہب بیزار طبقہ نام نہاد مغرب نواز کلچر کا پیروکار ہے جو ایک عرصے سے معاشرے میں خاندانی نظام کو تباہ کرنے پہ تلا ہے۔ اور بعض روایتی گھرانوں کی لڑکیاں بھی اس پروپیگینڈہ کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں۔ یہ فحش اور عریاں قسم کی بےجا آزادی کے نعرے خاندانی نظام کے بگاڑ کا باعث ہیں۔ یہ بےلگام آزادی، فحش پوسٹرز اور آوارہ گردی معاشرتی انتشار کا باعث ہیں۔ یہ دوسروں کو اپنا جسم اپنی مرضی کے مطابق جینے کا درس دینے والی لبرل انٹیوں کے کھوکھلے نعرے ہیں۔ جن کی سڑکوں پر نمائش کی جاتی ہے۔ ماڈرن ازم (بے حیائی) کی طرف رغبت دلانے اور فیشن کے طور پر آزادی کے فحش نعرے لگانے والوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ اوراس فحش طرزِ معاشرت کی معراج یہ ہی سب کچھ ہے جس کے نعرے یہ لبرل انٹیاں لگاتی ہیں۔ یہ انہی جعلی دانشوروں کا بدبو دار لبرل طرزِ زندگی ہے جہاں ان کے انہی نعروں کی بدولت آئے روز ناجائز تعلقات اور تماشے بنے رہتے ہیں۔ ان لبرل مافیا کا اصل مقصد ہی خاندان کا بگاڑ اور مادر پدر آزادی ہے۔
بات یہ ہے کہ معاشرے کی ترقی میں عورت کی خدمات سے انکاری کوئی نہیں۔ لیکن عورت کے حقیقی کردار کا تعین دینی اور معاشرتی اقدار کے دائرے میں رہ کر ہی ممکن ہے۔ مغربی حقوق کا تصور اسلام میں نہیں۔ کیونکہ اسلام عورت کو مغرب کی بے جا فحش آزادی کے سنگین نتائج سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام نے نکاح کا نظام دیا ہے۔ مہذب اقوام مہذب معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اور مہذب معاشرے کی بنیاد نکاح پر ہے۔ امام ابن القيم رحمه الله شادی کی ترغیب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
۱. اگر شادی کی اہمیت و فضیلت میں صرف نبی صلی الله علیه وسلم کا روز قیامت اپنی امت کو دیکھ کر خوش ہونا ہی ہوتا تو کافی تھا۔
۲. موت کے بعد نیک عمل کا (بصورت صالح اولاد) جاری رہنا ہی ہوتا تو کافی تھا۔
۳. ایسی نسل جو الله کی وحدانیت اور نبی کی رسالت کی گواہی دیتی ہو، کا پیدا ہونا ہی ہوتا تو کافی تھا۔
۴. محرمات سے آنکھوں کا جھک جانا اور شرمگاہ کا محفوظ ہو جانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔
۵. کسی خاتون کی عصمت کا محفوظ ہو جانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔ میاں اور بیوی اپنی حاجت پوری کرتے ہیں، لذت اٹھاتے ہیں اور ان کی نیکیوں کے دفتر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
۶. مرد کا بیوی کے پہننے اوڑھنے، رہنے سہنے اور کھانے پینے پر خرچ کرنے کا ثواب ہی ہوتا تو کافی تھا۔
۷. اسلام اور اس کے ماننے والوں کا بڑھنا اور اسلام دشمنوں کا اس پر پیچ و تاب کھانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔
۸. بہت سی عبادات، جو تارکِ دنیا درویش نہیں بجا لا سکتا، کا بجا لانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔
۹. دل کا شہوانی قوت پر قابو پا کر دین و دنیا کیلیے نفع مند کاموں میں مشغول ہو جانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔ کیونکہ دل کا شہوانی خیالات میں گِھر جانا، اور انسان کا اس سے چھٹکارے کی جد و جہد کرتے رہنا بہت سے مفید کام نہیں ہونے دیتا۔
۱۰. بیٹیوں کا، جن کی اس نے اچھی پرورش کی اور ان کی جدائی کا غم سہا، جہنم سے ڈھال بن جانا ہی ہوتا تو کافی تھا۔
۱۱. دو بچوں کا کم عمری میں فوت ہونا جو اس کے جنت میں داخلے کا سبب بن جاتے، ہی ہوتا تو بہت کافی تھا۔
۱۲. الله کی خصوصی مدد کا حاصل ہو جانا ہی ہوتا تو بہت کافی تھا۔ کیونکہ جن تین لوگوں کی اعانت الله کے ذمے ہے، اس میں ایک پاکیزگی کی خاطر نکاح کرنے والا بھی ہے۔”
(بدائع الفوائد : 159/3)
اسلام میں مرد اور عورت میں بحیثیت انسان کوئی فرق نہیں۔ اسلام میں دونوں کا درجہ مساوی ہے۔ دینی معاملات میں بھی دونوں الله کے سامنے جوابدہ ہیں۔ تاہم دونوں کو صلاحیتوں، فطرت اور جسم کے لحاظ سے الگ الگ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ الله رب العزت نے مرد کو معاشی ذمہ داری سونپ کر قوام کا درجہ دیا ہے۔ مرد اور عورت دونوں کے مشترکہ حقوق ہیں۔ کچھ حقوق شوہر کے ہیں اور کچھ بیوی کے ہیں۔ بیوی کے حقوق شوہر کے فرض ہیں۔ اور شوہر کے حقوق بیوی کے فرض ہیں۔ شوہر بیوی کے درمیان محبت بھرا تعلق الله تعالی کی رحمت ہے۔ الله نے شوہر بیوی کے رشتے کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔
وہ تمہارے لئے لباس ہیں تم ان کے لئے لباس ہو۔
(سورہ بقرہ:187)
اور اس طرح دونوں ایک دوسرے کے رازدار اور امین ہیں۔ رازداری میں خیانت نہیں ہونی چاہئیے۔ خوشگوار زندگی کے لئے سیدھی سچی کھری بات، بہت ضروری ہے۔ خیر خواہی سے باہمی اعتماد کی فضا ہوتی ہے۔
رسول نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو۔
(ترمذی:1162)
رسول الله گھر کے کام کاج میں بیویوں کے ساتھ تعاون کرتے تھے یہ مشترکہ حق ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے ہمارے معاشرے میں اس معاملے میں حقوق کی خلاف ورزی ہے مثال کے طور پر:
الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم اپنے کپڑے خود دھو لیتے تھے۔ آج کے مرد کیا یہ کام کرتے ہیں؟
آپ صلی الله علیہ وسلم پیوند خود لگا لیتے تھے آج کے مرد یہ کام نہیں کرتے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جھاڑو لگا لیتے تھے آج کا مرد اس سے عار محسوس کرتاہے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بکریوں کا دودھ خود نکالتے تھے۔ آج کا مرد یہ سارے کام نہیں کرتا۔
تعلقات میں نرمی اختیار کرنی چائیے۔
(صحیح مسلم:6602)
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں عورت پر ظلم نہیں ہوتا۔ بلکل عورت کے ساتھ ظلم ہوتا ہے لیکن یہ تاثر دینا کہ یہ معاشرے کی ہر عورت کی کہانی ہے لہذا معاشرے کی ہر عورت سڑکوں پہ نکل آئے۔ اپنے باپ، بھائی، شوہر بیٹے پر چلائے اور مغرب کی طرح بے جا آزادی، اور خودمختاری ہو۔ جو جی چاہے کرے، جہاں جس کے ساتھ چاہے جائے۔ پھر اس کے نتائج بھی ویسے ہی آتے ہیں۔ اب معاشرے میں آئے روز جنسی زیادتی کے جو واقعات اتنی شدت سے بڑھ رہے ہیں ان کا زیادہ ذمہ دار یہ لبرل طبقہ ہی ہے۔ اسلام نے جو حدود مرد اور عورت کے لئے متعین کی ہیں ان کو پھلانگ کر یہ خاندانی نظام کو تہس نہس کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
باہمی ادب، اعتماد، خلوص، احترام، حدود و قیود، یہ خاندانی نظام میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گھر کا خوشگوار ماحول ، چہروں کا کھلا پن، شگفتگی، کام کی تھکن اتار دیتا ہے۔ یہ خاندانی نظام کی اہم ضرورت ہے جس کا دونوں کو خیال رکھنا چاہئیے شگفتگی صرف عورت کی طرف سے نہیں مرد کی طرف سے بھی ہونی چاہئیے یہ عجیب بات ہے کہ مرد گھر سے باہر جائے جب واپس آئے تو گھر والوں کے لئے بیزاری اور تھکن ہی ہو بیزاری، غصہ اور ڈانٹ ڈپٹ گھر والوں کے حصے میں آئے یا گھر والوں اور بچوں کے معاملات سے لا پرواہی یہ طرز عمل درست نہیں ہے۔ گھر والوں کا پہلا حق ہے کہ ان کے ساتھ شگفتگی کا معاملہ کیا جائے۔ بہترین خاندانی نظام کے لئے آپس کی بھلائی کو فراموش نہیں کرنا چاہئیے۔
یاد رکھیں کہ دنیا کی بہترین متاع عورت ہے۔ ایک اچھی بیوی شوہر کو مدِ مقابل نہیں بلکہ اپنا ساتھی سمجھتی ہے۔ صرف توجہ نہ چاہیں بلکہ توجہ شوہر کو بھی توجہ دیں۔شفقت کرنے والی، خیال کرنے والی بنیں۔
الله کی نظر میں صالح عورت وہ ہے جو شوہر کی فرمانبردار ہو۔ اور اسکی غیر موجودگی میں اپنی عزت اور گھر کی حفاظت کرے۔ صالح عورت شکر گزار، اور مضبوط ہوتی ہے وہ کبھی بکھرتی نہیں اور نہ ہی اپنے خاندان کو بکھرنے دیتی ہے۔ دوسری جانب اسلام نے معاشی ذمہ داریاں مرد کو دے کر اسے سربراہ کی حیثیت دی ہے لہذا اسے اپنی تمام معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو احسن طریقے پورا کرنا چاہیے۔ اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے ۔ مردوں میں بہترین وہی ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ اخلاق میں بہتر ہو۔ اس طرح ایک اچھے خاندان کی تشکیل میں دونوں اپنا کردار ادا کریں۔
جزاکم الله خیراً کثیرا
@Nusrat_writes