لوگ شاعری کی بجائے خاتون شاعرہ کا چہرہ دیکھ کر "واہ واہ” کرتے ہیں

0
47
sabeen

لوگ شاعری کی بجائے خاتون شاعرہ کا چہرہ دیکھ کر "_واہ واہ” کرتے ہیں

میں صرف 3 خواتین کو شاعر مانتی ہوں

پاکستان میں ادب کے فروغ کیلئے ادبی اداروں کی کارکردگی زیرو ہے

شاعری درد سے جنم لیتی ہے شوق سے نہیں
معروف شاعرہ ثبین سیف کی کی دلچسپ باتیں

گفتگو و تعارف: آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو کی معروف پاکستانی شاعرہ ثبین سیف صاحبہ کراچی میں پیدا ہوئیں ان کا اصل نام ثبینہ پروین ہے لیکن سیف اللہ خان سے شادی کے بعد ان کی نسبت سے ثبین سیف کا نام اختیار کر لیا۔ ان کے والد کا نام سید ابن حسن صدیقی ہے وہ آرمی افسر تھے۔ ثبین کی مادری زبان اردو ہے ۔ ان کے 5 بھائی اور 3 بہنیں ہیں بڑی بہن شادی کے بعد امریکہ منتقل ہو چکی ہیں ۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں اس لیئے والدین اور بہن بھائیوں نے انہیں ایک گڑیا اور شہزادی جیسا پیار دیا ۔ اولاد میں ماشاء اللہ ان کے 2 بیٹے ہیں اور دونوں شادی شدہ اور بچوں کے باپ ہیں ۔ ثبین کا کہنا ہے کہ میں پہلے خودکشی کرنا چاہتی تھی مگر اپنے بیٹوں کے بچوں کی وجہ سے جینا چاہتی ہوں ۔ ثبین کی اب تک 5 کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔

معروف ادیبہ اور شاعرہ فرحین چودھری کی طرح ثبین کے خیالات بھی خواتین شاعرات اور ادبی اداروں کے بارے میں کچھ مختلف ہیں ۔ ثبین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ادب کے فروغ کیلئے حکومت کی جانب سے سالانہ کروڑوں روپے مختص کئے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود سرکاری ادبی اداروں کی کارکردگی ” زیرو” ہے جبکہ خواتین شاعرات کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ پاکستانی شاعرات کی اکثریت شاعر نہیں ہے وہ صرف حمیدہ شاہین ، ریحانہ روحی اور نرجس زیدی کو شاعرہ تسلیم کرتی ہیں ۔ ان کا دعوی ہے کہ اکثر خواتین صرف نام کی شاعرہ ہیں لوگ مشاعروں اور فیس بک پر ان کی شاعری کی بجائے ان کے چہروں اور تصاویر کو دیکھ کر ” واہ واہ” کی بھرپور داد دیتے ہیں ۔ ثبین مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتی ہیں ۔ بیرون ممالک بھی ایسے مشاعروں میں جاتی ہیں جہاں منتظمین کی جانب سے آمد و روانگی کے ٹکٹ و قیام و طعام کا مکمل انتظام کیا جاتا ہو ان کا کہنا ہے کہ میں ان شاعروں میں سے نہیں ہوں جو بیرون ممالک کے مشاعروں کا صرف دعوت نامہ ملنے پر اپنے خرچے پر چلے جاتے ہیں ۔ اپنی شاعری کی وجہ کے بارے میں بتایا کہ شاعری شوق سے نہیں درد سے جنم لیتی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی ماں کے آنسوں دیکھ کر شاعری شروع کی ہے کیوں کہ والدین کی ازدواجی زندگی بہتر نہیں تھی انہوں نے کہا کہ انسان کو شادی بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیئے اور پھر اس شادی کے رشتے کو عمر بھر مضبوطی کے ساتھ نبھانا چاہئے ۔ اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی انہوں نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا کہ میں اپنے شوہر کے ” معیار” پر پورا نہیں اتر سکی ۔میں بی اے کر رہی تھی کہ میری شادی کر دی گئی لیکن میری شادی کا ” رزلٹ ” صحیح نہیں آیا۔ ثبین نے شادی شدہ جوڑوں اور تمام والدین سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی خاطر اپنی شادی کے بندھن کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں کیوں کہ والدین کے مابین علیحدگی کی وجہ سے ان کے بچے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ثبین نے اس بات پر اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں لوگوں کی طرف سے بہت عزت اور پیار ملتا ہے جس میں خواتین کی گرم جوشی قابل رشک ہے۔

ثبین صاحبہ کا ایک بہت مشہور و معروف شعر

پہلے ڈرتی تھی اک پتنگے سے
ماں ہوں اب سانپ مار سکتی ہوں

ایک ضروری وضاحت

آج ثبین صاحبہ کی سالگرہ ہے لیکن ان کی طرف سے تاریخ پیدائش نہ بتانے کی وجہ سے ان کی تاریخ پیدائش نہیں لکھ سکا جبکہ ان کے وائس میسیج کی وجہ سے ان کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات نہ سمجھنے اور نوٹ نہ کر سکنے کی وجہ سے میں لکھنے سے قاصر رہا ہوں

غزل . ثبین سیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر بھر بوجھ اٹھایا تو نہیں جا سکتا
ہر تعلق کو نبھایا تو نہیں جا سکتا
آپ اس بار بھی دیوار میں چنوا دیں مجھے
اب کے بھی سر یہ جھکایا تو نہیں جا سکتا
روز مرنے کا ہنر جس نے سکھایا ہے مجھے
اس کا احسان بھلایا تو نہیں جا سکتا
چشم بینا ہے مگر عقل سے نا بینا ہیں
آئنہ ان کو دکھایا تو نہیں جا سکتا
تم نے اک عمر مرے دل پہ حکومت کی ہے
تم کو پل بھر میں بھلایا تو نہیں جا سکتا
جن کو الفاظ سے ڈسنے کا ہنر آتا ہے
ہاتھ اب ان سے ملایا تو نہیں جا سکتا
جس قدر سنگ زنی چاہیے کر لیں مجھ پر
سنگ زادی کو رلایا تو نہیں جا سکتا
ہوں مکیں جن میں کئی سال سے زندہ لاشیں
ان مکانوں کو سجایا تو نہیں جا سکتا
جس کی خاموشی میں آسیب سکوں کرتے ہوں
ایسا ویرانہ بسایا تو نہیں جا سکتا
تو بت عشق نہیں تو تو خدا ہے میرا
اب تجھے ہاتھ لگایا تو نہیں جا سکتا

غزل
۔۔۔۔
بات کیا ہے یہ بتائیں تو سہی
گفتگو آگے بڑھائیں تو سہی
جان جائیں گے کھرا کھوٹا ہے کیا
آپ مجھ کو آزمائیں تو سہی
انگلیاں اٹھیں گی چاروں آپ پر
آپ اک انگلی اٹھائیں تو سہی
بندہ پرور ناامیدی کفر ہے
اک دیا پھر سے جلائیں تو سہی
چاند تارے منتظر ہیں آپ کے
آسماں تک آپ جائیں تو سہی
وصل کر دے گا خزاں کو فصل گل
پھول بالوں میں لگائیں تو سہی
دیکھیے سنیے ارے جانے بھی دیں
آپ میرے ساتھ آئیں تو سہی
خود کو رکھ کر بھول بیٹھی ہوں کہیں
میں کہاں ہوں کچھ بتائیں تو سہی
آپ تو بس گھر بنا کر رہ گئے
آپ اس گھر کو بسائیں تو سہی
چٹکیوں میں بھول جاؤں گی انہیں
اب مجھے وہ یاد آئیں تو سہی
نیند آنکھوں سے خفا ہو جائے گی
خواب پلکوں پر سجائیں تو سہی
جان لے لوں گی قسم اللہ کی
بھول کر مجھ کو بھلائیں تو سہی
آزمانے کے لیے قسمت ثبینؔ
دل کو داؤ پر لگائیں تو سہی

غزل
۔۔۔۔
پوچھیے مت کیا ہوا کیسے ہوا
بت کوئی میرا خدا کیسے ہوا
آدمی بے حد برا تھا وہ مگر
پھر اچانک وہ بھلا کیسے ہوا
جس دئے کی آبرو تھی روشنی
وہ طرف دار ہوا کیسے ہوا
میں جسے سمجھی نہ تھی وہ عشق تھا
ہاں مگر پھر وہ سزا کیسے ہوا
آدمی سے پوچھتا ہے آدمی
آدمی خود سے جدا کیسے ہوا
مجھ کو آیا تھا منانے کے لیے
کیا خبر مجھ سے خفا کیسے ہوا
سوچتی رہتی ہوں میں اکثر ثبینؔ
جو نہیں سوچا گیا کیسے ہوا

Leave a reply