)

ملکی حالات سے عوام الناس کی امیدوں پر تو پانی پھرا ہی ہے خود عمران خان کا دل بھی سوگوار ہے 22 سالہ کاوشوں کے بعد اقتدار ملا بھی تو کیا ملا سب سے پہلے تو صرف ایک صوبے میں واضح برتری ملی اور حکومت بھی بنی۔ سندھ بلوچستان بس حاضری لگی۔ پنجاب اور وفاق میں جس طرح حکومتیں بنائی گئی ہیں ان کے بارے میں سوچا بھی جائے تو چیخ نکل جاتی ہے۔ اگر مقتدر حلقے خاموش حمایت نہ کرتے جہانگیر کا جہاز نہ اڑتا تو خان صاحب کے پی کے میں کسی سنسان جگہ پر بیٹھ کر اللہ اللہ کر رہے ہوتے حالت یہ ہے کہ اگر ڈاکو اپنا ہاتھ کھینچ لے چپڑاسی ذرا پیچھے ہٹ جائے۔ سند ھ کے غدار آ نکھیں ماتھے پہ رکھ لیں تو پنجاب اور وفاق واپس نااہلوں چوروں۔ ڈاکوؤں اور لٹیروں کے پاس چلا جائے گا اور یہی نیب خوردبینیں لگا کے پی ٹی آئی کے لوگوں کی ایسی کی تیسی کرنے پر تل جائے گی یہی وجہ ہے کہ۔ ary۔ کے صابر شاکر کو یہ کہنا پڑا کہ عمران خان دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ کر چکے ہیں مگر جانے سے پہلے ناکامی کی آخری سٹیج دیکھنا چاہتے ہیں۔ حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس حکومت نے چارج سنبھالتے ہی سیاسی دشمنوں سے نمٹنے پر زیادہ توجہ دی۔ الیکشن سے پہلے کی گئی تقاریر میں عمران خان نے جن جن لوگوں سے دو دو ہاتھ کرنے کی بات کی۔ ان کو پہلے ہی سال جیل میں پہنچایا۔ سیاست میں اپنے آپ کو منوانے کا وقت بہت ہی کم ہوتا ہے۔ اس تھوڑے سے وقت کو فضولیات میں برباد کر دیا جائے تو پیچھے پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ اپنا قیمتی ترین وقت سیاسی دشمنوں پر برباد کرنے کے بعد جب یہ لوگ عوام کی طرف لپکے تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی گھی۔ آ ٹا۔ چینی۔ دال۔ گیس۔ بجلی کی قیمتیں آ سمان سے باتیں کر رہی ہیں معاملات ہاتھ سے نکل چکے ہیں اتحادی اس واضح بربادی کو دیکھ کر پتلی گلی سے نکل رہے ہیں۔ حالات اتنی تیزی سے بدلیں گے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ایک عوامی حکومت عوام کی نظروں سے گر چکی ہے اگر عمران خان برباد کنندگان کو ڈھونڈنا چاہیں تو اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں آسانی سے مل جائیں گے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تین سال میں ایک نئی اینٹ بھی نہیں لگ سکی۔ حالانکہ ان کو ایک رواں دواں اورورکنگ ملک ملا تھا۔ اس حکومت نے قیمتی ترین تین سال کرپشن کے رونے دھونے میں گنوا دیے۔ کرپشن صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں یہ تو انٹرنیشنل معاملہ ہے۔ جس چائنا کی مثالیں دیتے دیتے عمران خان تھکتے نہیں وہاں حال ہی میں کرپشن کی بنیاد پر متعدد لوگوں کو سرعام پھانسی دی گئی ہے۔ معاشروں میں موجود برائیاں بدتریج کم ہوتی ہیں انہیں بیک جنبشِ قلم ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر موجودہ حکومت پہلے دن سے ہی عوامی مشکلات پر کام کرتی تو آج منگائی پچھلے پچاس سال کا ریکارڈ نہ توڑتی۔ ساری توانائی کرپشن پر صرف کرنے اور خزانے پر سانپ بن کر بیٹھنے کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا۔ جسے ہوش ربا مہنگائی نے پر کر دیا اب یہ لوگ جتنا مرضی دیواروں سے سر ٹکرائیں نہ مہنگائی کم ہو گی اور نہ عوام ان کو خاطر میں لائیں گے یہ عوامی اعتماد کھو چکے ہیں ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کرنے والے خود خان صاحب کی گود میں بیٹھے ہیں۔ ان کے خلاف وہ جا نہیں سکتے۔ اتحادی آہستہ آہستہ سرک رہے ہیں۔ ان کو واپس لانے کے دروازے بھی بند ہورہے ہیں۔ تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے۔ کہ خاتمے کی ابتدا ہو چکی۔ انتہا بہت قریب ہے.
@joinwsharif7

Shares: