پاکستان میں آج کل ایک سوچ پروان چڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل افراتفری کا شکار ہو رہی ہے اور اس سوچ کی وجہ سے نظریہ پاکستان اور پاکستانیت شدید مجروح ہو رہے ہیں۔
یہ سوچ خود ساختہ دانش وری کی سوچ ہے۔ آج کل ایک ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ جو شخص جتنا باغیانہ سوچ رکھتا ہو گا وہ اتنا ہی بڑا عقل مند اور دانش ور ہو گا۔ نوجوان نسل شہرت اور ہیروپنتی کے چکر میں اینٹی سٹیٹ کارروائیوں میں بڑے شوق سے شامل ہو کر سوشل میڈیا پر ملک و قوم کی بے حرمتی کرتے نظر آتے ہیں۔
اسی سوچ کی وجہ سے لسانیت اور صوبائیت کو ہوا دی جا رہی ہے اور معصوم عوام کے ذہنوں میں انتشار، اختلاف اور علیحدگی کی گھٹیا سوچ کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی خوبصورتی اس کے مخلوط صوبائی حسن میں ہے۔ جس طرح کسی گلدستے میں ایک ہی رنگ کے پھولوں کی نسبت مختلف رنگ کے پھول زیادہ خوبصورت لگتے ہیں ایسے ہی پاکستان میں بھی مختلف ثقافتوں کا امتزاج انتہائی دلکش اور حسین لگتا ہے۔ پاکستان اپنی خوبصورتی اور مہمان نوازی کی وجہ سے عالمی سیاحت کا پسندیدہ ترین ملک بن چکا ہے۔
اس باغیانہ سوچ کی بیشتر وجوہات ہیں۔ بیسویں صدی میں دنیا میں لاتعداد سیاسی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جن میں انقلابِ روس اور چی گویرا کی جدوجہد سرِفہرست ہے۔ ہماری موجودہ نسل ان سے مختلف سیاسی اور سماجی صورتحال میں رہتے ہوئے انقلابی اور چے گویرا بننے کے چکروں میں اپنی اصلیت بھی کھوتی جا رہی ہے۔ نصف صدی قبل سوویت یونین نے پاکستانی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنے افکار کی تشہیر کے لئے خاطر خواہ انویسٹمنٹ کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو نظام خود سوویت یونین میں ناکام ہوا یہاں کے دیسی انقلابی اسی نظام کو پاکستان میں لاگو کرنے کی جدوجہد میں پڑ گئے۔ اس دور کے طالب علم آج کل مختلف اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہو چکے ہیں اور اکثر ریٹائر بھی ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کی لگائی پود آج بھی پل بڑھ رہی ہے۔ جو لوگ محکمہ تعلیم میں آئے انہوں نے اپنے طالب علموں کے درمیان اپنے خیالات خوب پھیلائے اور نتیجتاً انہیں بھی اپنا ہم خیال بنا لیا۔ اسی طرح ہر محکمے میں اس سوچ کے کچھ نہ کچھ لوگ موجود ہیں جو خود ساختہ سرخ انقلاب کا لولی پاپ لئے اپنی ہی جد و جہد میں مگن ہیں۔
یہ لوگ ہر اس قدم کو سراہتے پیں جو ریاستِ پاکستان کی اساس، بنیاد، نظام اور نظریئے کے خلاف ہو۔ یہ لوگ کبھی بھی ملکی یا بین الاقوامی سطح پر ریاست کے کسی بھی بیانئے کو قبول یا پروموٹ نہیں کرتے۔ بلکہ جہاں تک ہو سکے مخالفت کرتے ہیں۔
آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر ملکی و اسلامی اقدار کی دھجیاں بکھیری جاتی پیں۔ کبھی یہ لوگ عورت مارچ کے نام پر سڑکوں پر آتے ہیں تو کبھی ان کو اساتذہ کے ڈریس کوڈ پر اعتراض ہوتا ہے۔ کبھی ان کو امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے پر اعتراض ہوتا ہے تو کبھی ABSOLUTELY NOT پر۔ کبھی یہ لوگ ایک فرضی تصویر کو افغان سفیر کی بیٹی بنا کر اغوا کے ڈراپ سین کا واویلا کرتے ہیں تو کبھی حقائق سامنے آنے پر چوہے کی طرح اپنی اپنی بلوں میں گھس جاتے ہیں۔
یہ لوگ جیسے چاہتے ہیں ویسے رہتے ہیں وہی پہنتے ہیں اور بولتے ہیں لیکن پھر بھی ہر وقت یہ لوگ پاکستان پر طرح طرح کی تہمتیں اور الزامات لگانے کے درپے رہتے ہیں۔
یورپ میں تیزاب گردی کے سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں لیکن کسی کو کوئی خبر نہیں جبکہ پاکستان میں رونما ہونے والے اکا دکا واقعات پر بھی فلمیں بن جاتی ہیں اور آسکر مل جاتے ہیں۔
ان لوگوں کا سب سے بڑا سپورٹر مغربی ایجنڈا ہے۔ مختلف این جی اوز اور آرگنائزیشنز کے ذریعے ان لوگوں کو فنڈنگ دی جاتی ہے۔ اور ان کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جاتا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے نظریہ پاکستان اور پاکستانیت کو فروغ دینے کے لئے یکساں نصابی نظام لاگو کیا تو سب سے زیادہ تکلیف بھی اسی طبقے کو ہوئی۔ کیونکہ یکساں نصابی نظام سے پاکستان میں موجود من گھڑت سوچ کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور نئی نسل کو پاکستانیت کی طرف لایا جا سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس باغیانہ سوچ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حالانکہ پوری دنیا میں ہر کہیں نصاب حکومت خود ہی سیٹ کرتی ہے۔ حتیٰ کہ کوریا جیسے ملک میں تو ہیئر کٹ بھی حکومت کی طرف سے منظور شدہ سٹائل سے ہٹ کر نہیں ہو سکتی۔ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے اور حکومتِ پاکستان ملکی مفاد کا ہر قسم کا فیصلہ کرنے کی مجاذ ہے۔
تمام نوجوان نسل سے میری گزارش ہے کہ کسی بھی باغیانہ سوچ کا شکار ہوئے بغیر ہم سب کو اپنے ملک اور قوم کے وقار کو مدِ نظر رکھ کر صرف اور صرف ملکی مفاد کا تحفظ کرنا ہو گا۔ تاکہ ہمارا وطن بھی ترقی کرے اور پھلے پھولے۔
خدائے ذوالجلال پاکستان کا حامی و مددگار ہو
پاکستان زندہ باد







