امریکہ کو بھی جلد یا بدیر طالبان حکومت کوتسلیم کرنا ہوگا،عمران خان

0
60
امریکہ-کو-بھی-جلد-یا-بدیر-طالبان-حکومت-کوتسلیم-کرنا-ہوگا،عمران-خان #Baaghi

اسلام آباد:دعا اورتمنّا یہی ہے کہ میرے وطن میں امن لوٹ آئے: اسی لیےکالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کررہے ہیں:اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان ہے کہ ہماری حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں شامل کچھ گروپوں سے بات چیت ہورہے ہیں۔ اگر وہ ہتھیارڈال دیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان مسئلہ پر ہمیشہ ایک ہی موقف رہا کہ طاقت مسئلے کا حل نہیں ،حکومت کالعدم ٹی ٹی پی میں کے کچھ گروپوں سے رابطے میں ہے،کالعدم ٹی ٹی پی اگر وہ ہتھیارڈال دیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے، کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت افغان طالبان کے تعاون سے افغانستان میں ہو رہی ہے ہم امن کیلئے بات چیت پریقین رکھتےہیں، مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحدراستہ ہے ،طالبان حکومت کوتسلیم کرنے سے متعلق ہمسایہ ممالک سے بات چیت جاری ہے،پشتون روایت میں انتقام عام بات ہے ،کوئی ان کے گھرمیں گھس کر مارے تو وہ ردعمل تودیں گے ،افغانستان میں پشتون بڑی تعداد میں آباد ہیں،امریکہ کو بھی جلد یا بدیر طالبان حکومت کوتسلیم کرنا ہوگا ،افغانستان کوغیر ملکی امداد نہ ملی تو حکومت گرجائے گی اور افراتفری پیدا ہوگی پاکستان اورافغانستان کی تاریخ کاقریبی تعلق ہے میں عراق،افغانستان اورحتیٰ کہ اپنے ملک میں طاقت کے استعمال کا مخالف رہا،

وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی جانوں کی قربانیاں دیں مگر تسلیم نہیں کیا گیا ہماری قربانیوں کو نظر انداز کرکے الزام تراشی کی گئی افغانستان میں تربیت یافتہ فورسزکا ہتھیارڈالنے کا ذمہ دار کون ؟دنیا کے بعض ممالک کا پاکستان کے ساتھ رویہ دہرے معیار کا ہے ،افغانستان میں ازبک،تاجک اور ہزار رہتے ہیں ،طالبان کوازبک ،تاجک اورہزارہ کوحکومت میں شامل کرنے کی تجویز دی پاکستان طالبان حکومت کی پشت پناہی نہیں کررہا نہ ہی افغانستان کوکنٹرول کیا جا سکتا ہے،لوگ افغانوں کی فطرت کونہیں سمجھ سکتے ،وہ زیرتسلط رہنے والے نہیں ہم انسانی بنیادوں پرافغانوں کی مدد کے خواہاں ہیں پاکستان امریکہ کےساتھ رابطے میں ہے،دہشتگردی کے خلاف ڈرون حملہ بدترین طریقہ ہے، ڈرون حملوں میں بڑی تعداد میں بےگناہ لوگ مارے جاتے ہیں،امریکی صدر جوبائیڈن اس وقت بہت دباو میں ہیں ،بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات کررہے ہیں حیرت ہے کہ اگر امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں تو امریکہ مخالف سمجھا جاتا ہے،طالبان نے افغانستان کا کنٹرول حاصل کیاتھا تو امریکہ کو دھچکہ لگا امریکی صدر جوبائیڈن پر ائیرپورٹ واقعے پر بہت تنقید ہوئی اورہورہی ہے،افغانستان کی صورتحال پر جوبائیڈن کو تنقیدکا نشانہ بنانا ناانصافی ہے

وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ 2014میں سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا حالیہ دنوں میں دہشت گردوں کےحملے بڑھنے پر تشویش ہے،اب بھیکہتا ہوں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اوردنیا کو افغانوں کی مددکرنی چاہیے،افغانستان میں امریکہ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی کیونکہ وہاں کے لوگوں کو نقصان پہچا،مسئلہ کشمیر دنیا کے ہر فورم پراجاگر کررہے ہیں چین اور پاکستان اچھے دوست ممالک ہیں،چینی صدر کے اپنی قوم کے لیے جدوجہد تاریخی ہے،چینی صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا اور میں نے بھی جانا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے ممکن نہ ہوا ،چینی صدر کا اپنی قوم کے لیے جدوجہد تاریخی ہے،

یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو مشروط معافی دیے جانے کے بیان دیا تھا۔ ترک میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے انٹرویو کے دوران کہا کہ یہ بات چیت افغان طالبان کے تعاون سے افغانستان میں ہو رہی ہے تاہم بات چیت کی کامیابی کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میرے خیال میں کچھ طالبان گروپ حکومت سے مفاہمت اور امن کی خاطر بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے کچھ گروپوں سے رابطے میں ہیں۔

انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ بات چیت ہتھیار ڈالنے پر ہو رہی ہے جس پر جواب دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ مفاہمتی عمل کے بارے میں ہے۔ ہتھیار ڈالنے کی صورت میں انہیں معافی دی جا سکتی ہے اور وہ عام شہری بن جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں معاملات کے عسکری حل کے حق میں نہیں ہوں اور کسی قسم کے معاہدے کے لیے پرامید ہوں تاہم ممکن ہے کہ طالبان سے بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہ ہو لیکن ہم بات کر رہے ہیں۔انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کیا افغان طالبان پاکستان کی مدد کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے مدد ہو رہی ہے کہ یہ بات چیت افغان سرزمین پر ہو رہی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ایک جانب ان کی حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے بات چیت کر رہی ہے تو تنظیم حملے کیوں کر رہی ہے تو عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ حملوں کی ایک لہر تھی۔

اس سے قبل سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کو انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگ دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے کا وعدہ کریں اور آئین پاکستان کو تسلیم کریں تو حکومت اراکین کو معاف کرنے کیلئے تیار ہو سکتی ہے۔

Leave a reply