خود احتسابی تحریر:محمد وقاص شریف

0
35

خود احتسابی میں کامیاب زندگی کا راز پوشیدہ ہے،دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے صرف ایک بٹن کھول کر جھانک لیا جائے تو دوسروں پر تنقید کرنے کی بجائے اپنی اصلاح کی فکر پڑ جاتی ہے۔اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اس کے بندوں کی خوشنودی کا حصول لازم وملزوم ہے۔
کہتے ہیں جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اُس نے خدا کو پہچان لیا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے آپ کو پہچانا۔ پہچاننے کی کوشش کی کیا خود احتسابی کا تصور کبھی بھی ہمارے ذہنوں میں آیا۔کیا ہمارے پاس ایک بٹن کھولنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ کیا ہم اتنے مصروف ہوگئے۔ہاں یہ مصروفیت بھی قابل قبول تھی اگر ہم خدمت خلق میں مصروف ہوتے۔گرتوں کو تھام رہے ہوتے،بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھلا رہے ہوتے،معذوروں کا سہارا بن رہے ہوتے ہماری وجہ سے مسجدیں آباد ہوتیں،بھوکے کو کھلا رہے ہوتے،بجھے چولہے جلا رہے ہوتے، بروز عید کاغذ چگنے والے ننھے منوں کے معصوم ہاتھوں میں تحفے تحائف دے رہے ہوتے،عام دنوں میں ان کو کتابیں دے رہے ہوتے،پیاسے کی پیاس بجھارہے ہوتے،خوشیوں سے انجان مخلوق خدا کیلئے راحت کا پیغام بن رہے ہوتے۔اگر ہم میں یہ سب کچھ موجود ہوتا تو پھرخود احتسابی کی ضرورت بھی نہ رہتی،خدا تعالیٰ خدمت خلق کے بدلے دھکا لگا دیتا لیکن ہم تو اور چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ رشوت لینا اپنا حق سمجھتے ہیں اور رشوت دینا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں،جھوٹ ثواب سمجھ کر بولتے ہیں،دھوکہ دینا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، غیبت اور چغلی ہمارے قومی کھیل ہیں،فرائض کو دانستہ نظر انداز کرکے ہم اپنے آپ پر اتراتے ہیں،اپنی کامیاب منفی سرگرمیاں بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں،روزہ رکھ کر جھوٹ بولتے ہیں اور بعض اوقات حالت روزہ میں جھوٹ بولنے کے ڈر کی وجہ سے روزہ ہی نہیں رکھتے، کسی مفلس کو دیکھ کر اس لیے بھی جھڑک دیتے ہیں کہ کس کس کی مدد کریں۔بھئی آپ اس ایک کی تو مدد کر دیں دوسروں کی کوئی اور مدد کردے گا۔جب انسانی مزاج کی حالت ایسی ہو ضمیر مردہ ہوجائے تو پھر خود احتسابی کا جذبہ پیدا ہونا کیسے ممکن ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گھناؤ نے خیالات کے اس جنگل سے باہر آکر مثبت سوچوں کا شہر بسایا جائے۔یہ انسانیت بہت دکھی ہے۔کچھ دکھ انسان کے دیئے ہوئے ہیں اور کچھ امتحان خداوندی ان دکھوں کا ذریعہ ہے۔اور تو اور حکمران بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہوچکے ہیں اور اقتدار کی رسہ کشی میں سبھی عوام کے دکھ درد کو بھول چکے ہیں۔غریب عوام کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔
@joinwsharif7

Leave a reply