خود پر احسان کریں — ریاض علی خٹک

0
95

بنجامن فرینکلن کا ایک سیاسی حریف اسے شدید ناپسند کرتا تھا. جبکہ دوسری طرف فرینکلن چاہتا تھا وہ اسکا دوست بن جائے. فرینکلن کو پتہ چلا اس کے پاس ایک نایاب کتاب ہے. فرینکلن نے اسے پیغام بیجھا کیا آپ کچھ دن کیلئے عاریتاً یہ کتاب مجھے پڑھنے کیلئے دے سکتے ہیں.؟ کتاب اسے دے دی گئی. کچھ دن بعد کتاب پڑھ کر فرینکلن نے اسے ایک شکریہ اور تشکر کے تحریری نوٹ کے ساتھ واپس کردی. اور ان کی دوستی کی ابتداء ہوگئی.

بنجامن فرینکلن ایک ہی وقت میں بہت کچھ تھا. وہ سائنس دان بھی تھا اور سیاستدان بھی لکھاری بھی تھا پبلشر بھی سفیر بھی تھا اور فلسفی بھی لیکن اوپر اس کے تحریر اس تجربے کو بن فرینکلن ایفیکٹ کہتے ہیں. ہمارا دماغ دو انتہاؤں کے درمیان اکثر کنفیوز ہوتا ہے ہم اپنی تسلی اور اطمینان کیلئے پھر چیز کو یا تو سفید یا سیاہ کہتے ہیں. دن یا رات اچھا یا برا فرشتہ یا شیطان. دماغ درمیان میں کچھ رکھنا نہیں چاہتا تو دستیاب معلومات پر فوراً ایک انتہا پر چلا جاتا ہے.

بنجامن فرینکلن نے اپنے اس حریف کو مجبور کیا وہ بنجامن پر احسان کرے. حریف کے دماغ کو اس احسان کیلئے اپنی انتہا سے کچھ نیچے اترنا پڑا. اور واپسی کے نوٹ نے کہا یار بندہ اتنا بھی برا نہیں اور ایک تعلق کی ابتداء ہوگئی. بقول امام راغب اصفہانی احسان ایسا عمل ہے جو ہر طرف سے خوبصورت ہو متوازن ہو.

ایک حدیث میں ہے احسان دین کی تیسری ضرورت ہے. اور یہ درجہ بندے کو تب حاصل ہوتا ہے جب اس میں ایمان اور اسلام دونوں جمع ہو جائیں. یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ہم کسی انتہا پر نہ ہوں. نہ اپنے لئے اور نہ دوسروں کیلئے. اگر آپ سمجھتے ہیں دوسرے آپ کیلئے انتہا پر ہیں تو فرینکلن ایفیکٹ کی سائنس سے فائدہ اٹھائیں اور ان کو موقع دیں وہ آپ پر کوئی احسان کریں.

لیکن اگر ہمارا نفس دوسرے کا احسان لینے پر بھی آمادہ نہ ہو تو پھر انتہا پر ہم خود کھڑے ہوتے ہیں. ایسے میں خود پر احسان کریں. انتہا سے نیچے اتریں. بندگی کا سارا حسن دو انتہاؤں کے درمیان ہوتا ہے.

Leave a reply