خود سے اور دوسروں سے نفرت کرتے کردار — ریاض علی خٹک

0
57

اولمپکس میں تماشائیوں سے بھرے سٹیڈیم میں دوڑ کے چیمپئن یوسین بولٹ کے ساتھ مقابلے میں اس وقت دنیا کے بہترین سائنسدان میوزیشن اداکار استاد جج ڈاکٹر انجینئر کو دوڑا دیں. پورا سٹیڈیم یوسین بولٹ کیلئے تالیاں بجائے گا. باقی سب لوگ تو مذاق ہی بن جائیں گے. لیکن یوسین بولٹ کو باکسنگ رنگ میں مائیک ٹائسن کے سامنے کھڑا کر دیں یوسین بولٹ کی آنے والی نسل بھی باکسنگ رنگ سے نفرت شروع کر دے گی.

ان سب کا اپنا اپنا الگ میدان ہے. یہ اپنے اپنے میدان کے چیمپین ہیں. یہی چیمپین دوسرے میدان میں دوسروں کیلئے مذاق بن جائے گا. اور اسے خود سے نفرت ہو جائے گی. ہاورڈ گارڈنر کی مشہور اور ایک تفصیلی تھیوری ہے کہ ہر فرد کی مہارت و ذہانت کا میدان الگ ہے. لتا منگیشکر کی آواز میں اسی سال کی عمر میں ترنم تھا جبکہ آپ بھلے نوجوان ہوں لیکن اگر گانا شروع تو سب ہاتھ جوڑ کر منہ بند کرنے کی فرمائش کر دیں گے.

گارڈنز کہتا تھا ذہانت کوئی دانشورانہ صلاحیت نہیں بلکہ مختلف لوگوں کی ذہانت کا میدان الگ ہوگا. کوئی موسیقی کی صلاحیت لے کر آیا ہوگا کوئی دوسروں کے احساس سمجھنے میں ماہر ہوگا کوئی حساب کتاب و منطق میں یکتا ہوگا کوئی زبان کا ماہر ہوگا. کسی کی آنکھ اور ہاتھ کا وہ تال میل ہوگا جو اسے آرٹسٹ بنا دے گا.

یہ خود سے اور دوسروں سے نفرت کرتے کردار وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایسے دانشوروں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں جو مچھلی کو کھیتی باڑی سکھانا چاہتے ہیں تو گائے کو تیرنا پرندے کے پر اتارتے ہیں تو ہاتھی کو آڑنے پر راضی کرنا چاہتے ہیں. دنیا کے سٹیڈیم کو یہ دانشور کچھ دیر کے قہقہے تو ضرور دے دیتے ہیں لیکن ان کے تراشے کردار پھر نفرت کرنا سیکھ جاتے ہیں.

Leave a reply