اس وقت پاکستان عجیب مسائل کا شکار ہے کہ یہاں عدلیہ اور میڈیا بھی اپنی آزادی کے متلاشی ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں مگر پاکستان میں بڑھ رہی ہیں ۔ سردیوں میں بھی عوام بجلی وہ بل دینے پر مجبور پر جو گرمیوں میں بھی نہیں آتے تھے ۔۔ آپ دیکھیں خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان رو پڑے ہیں کہ تنخواہ کم ہے، کئی دفعہ صدرسے درخواست کی کہ تنخواہ بڑھا دیں۔ اس سے اندازہ لگا لیں عوام کا کیا حال ہوگا ۔ وہ کس عذاب سے گزر رہے ہوں گے ۔ پھر کئی مہنیوں سے یہ ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ بجلی یا گیس کی جو قیمت بڑھائی ہے اس کا عام آدمی پر اثر نہیں پڑے گا۔ فلاں فلاں چیزوں پر جو ٹیکس لگایا ہے اس کا بوجھ عام آدمی پر نہیں آئے گا۔ حالانکہ پاکستان میں ہر بوجھ اٹھاتا ہی عام آدمی ہے۔ سرکار کے تمام ملازم اور سیاستدان تو پلتے ہی عوام کے ٹیکسوں پر ہیں ۔ ان کو تو ہر چیز میں چھوٹ بھی ملتی ہے ۔ سبسڈی بھی ملتی ہے ۔ اور مزے کی بات ہے کہ انھوں نے کوئی کام بھی نہیں کرنا ہوتا ۔
۔ پھر شہباز گل کے بعد وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد کا بھی کہنا ہے کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کو بھی صحت کارڈ دیں گے۔ بڑی اچھی بات ہے مگر ان کو چاہیے کہ اپنے اردگرد عمران خان کی ای ٹی ایم مشینوں پر بھی نظر کرم فرما دیں ان کے سمیت بہت سے ایسے وزیر جو نواز شریف کی ہی طرح علاج باہر سے کروانے کے عادی ہیں ان کو بھی یہ ہیلتھ کارڈ بھیج دیں تو اس قوم پر احسان ہوگا ۔ ۔ میری تو ہنسی نہیں روک رہی ہے یہ دیکھ کر وہ جو ہر روز پوچھا کرتے تھے نواز شریف دوائی لے کر کب آئیں گے؟ ان ٹائیگروں کی سات سمندر پار بیٹھے نواز شریف کی آمد کی خبر سن کر ہی چیخیں ساتویں آسمان تک جارہی ہیں۔ بلکہ فواد چوہدری تو کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے پاس صرف دو آپشنز ہیں یا تو وہ لندن جائیں یا پھر جیل ۔۔۔ بڑی اچھی بات کی ہے انھوں نے بھی ۔ پر ان کو یہ بتانا چاہیے کہ قوم کو کپتان نے اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا تھا کہ ان کرپشن کے میناروں کے پیٹ پھاڑ کر پیسے نکلواؤں گا ۔ اس کا کیا بنا ۔۔۔ کتنا پیسہ اب تک ریکور ہوگیا ہے ۔ کوئی حساب ہی دے دیں ۔ چوہدری صاحب تو اچھا ہوتا ۔۔۔ کیونکہ ان کو تو ہر چیز کا احوال معلوم ہوتا ہے ۔ اب تو حکومت بھی ان کی اپنی ہے ۔ نیب بھی ہاتھ میں ہے ۔ پیج بھی ایک ہے ۔ پھر بھی پتہ نہیں کیوں ۔ یہ کرپشن کا پیسہ نہیں نکلوا سکے ۔
۔ سوال تو بنتا ہے کہ نیب نے تو شریف خاندان سے مبینہ کرپشن کی رقم نکلوا کر خزانے میں جمع کروانی تھی لیکن اس نے براڈ شیٹ کو بھاری رقم جبکہ براڈ شیٹ نے نواز شریف کو ہرجانے کی رقم ادا کرکے مضحکہ خیز صورتحال پیدا کردی ہے ۔
۔ میں کسی کو ڈرانا نہیں چاہتا مگر حقائق یہ ہیں کہ گزشتہ سال اغواء برائے تاوان، چوری اور ڈاکہ زنی کی وارداتوں میں اضافہ اوربھکاریوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ کے ساتھ ساتھ خود کشیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ۔ پھر طلاق کی شرح میں اضافے کیساتھ منشیات کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا۔ اس سب کی وجہ غربت، اور بیروزگاری ہے۔ ۔ پر آپ دیکھیں کہ منشیات کے استعمال کو روکنے کی بجائے حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر بھنگ کی فیکٹریاں قائم کی جا رہی ہیں۔ ۔ اینٹی کرپشن ، نیب اور حکومت کے بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود ملک میں کرپشن کی شرح زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ اور تو اور صرف پانی چوری پر بھی قابو نہ پایا جا سکا ہے ۔ ۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ عمران خان پانچویں سال مہنگائی ختم کر دیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پانچویں سال غریب میں کتنی سکت باقی ہوگی کہ وہ اپنے پاؤں پر چل کر پولنگ اسٹیشن تک پہنچے گا اور عمران خان کے بلے کو ووٹ دے گا؟ فی الحال تو غریب بلے کو جلا کر گھر کا چولہا جلا رہا ہے کیونکہ گیس آ نہیں رہی اور ایل پی جی پہنچ سے دور ہے ۔ پھر میری تو یہ سوچ سوچ کر سانسیس خشک ہوجاتی ہیں کہ چند ماہ بعد بھی اس ہی حکومت اور نئے وزیر خزانہ نے نیا بجٹ دینا ہے ۔ کیونکہ تحریک انصاف میں تحریک اور انصاف دونوں ہی ختم ہوچکے ہیں ۔
۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر ملک چلانے اور قرض اتارنے کے لئے عوام کی جیبیں ہی خالی کرنی ہیں۔ انہی پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا ہے۔ مہنگائی کا عذاب انہی پر نازل کرنا ہے تو پھر آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر کے لئے سارا تردد کیوں کیا جا رہا ہے۔ ۔ ایک ارب ڈالر کے لئے اگر 360 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے پڑتے ہیں تو صرف ٹیکس ہی لگاؤ۔ آئی ایم ایف سے تو کم از کم جان چھڑاؤ۔ پر اب وزراء یہ نئی تھیوری لائے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پروگرام میں اس لئے رہنا ہے کہ ہم امریکہ کو ناراض نہیں کر سکتے۔ یہاں پھر سے ان کے مخالفین کی وہ بات یاد آجاتی ہے کہ کپتان کو لایا ہی سی پیک کو رول بیک کرنے کے لیے گیا ہے ۔ اگر امریکی ایماء پر ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں جا رہے ہیں تو پھر لوگ تو کہیں گے کہ مولانا عمران خان بارے ٹھیک کہتے ہیں۔ اس وقت تحریک انصاف میں عطائی مشیروں کی بھرمار ہے ۔ جنہوں نے اس تبدیلی کے بخار کو مزید خطرناک کرکے ڈینگی بخار بنا دیا ہے ۔ اس وقت جو پاکستانیوں کو صورتحال درپیش ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ صرف امیر ہی نہیں درمیانے اور نچلے طبقے کے لوگ بھی حالیہ پالیسسیز کی وجہ سے شدید متاثر ہیں ۔ تعلیم مزید مہنگی ہو گی ہے ۔ علاج میسر نہیں ۔ یہاں تک کہ سلائی کڑھائی کر کے اپنے کنبے کا پیٹ پالنے والے عورتیں اورمرد بھی اس سے متاثر ہیں ۔ دراصل حکومت نے عوام کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اس قرض پر اقساط اور سود کی ادائیگی کے لیے بجٹ میں مختص رقم ، ہمارے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ کیا کسی کو احساس ہے اس عدم توازن کا انجام کیا ہو گا ۔ جو مسائل ہم کو درپیش ہیں جو خطے کی صورتحال ہے اس میں کبھی سوچا ہے کہ جب دفاعی بجٹ کم ہوگا ۔ تو ہم کیا کریں گے ۔ اس وقت ہم تیزی سے اندھے کنویں کی سمت لڑھکتے جا رہے ہیں۔۔ قرض ، مزید قرض اور مزید قرض۔ ہماری معاشی پالیسی کا خلاصہ ہے۔ نہ ہمارے پاس کوئی متبادل ہے نہ ہم نے کبھی متبادل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ حکومت روز گار دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ۔ ہر قسم کی انڈسٹری آخری سانسوں پر ہے ۔ ان کے پاس ہر مسئلے کا واحد حل صرف اور صرف ٹیکس ہے ۔ جو غریبوں پر قہر بن کر ٹوٹ رہا ہے ۔ یہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ بس ۔۔۔
۔ آنے والے دنوں میں صورت حال مزید سنگین ہو نے کا ڈر ہے۔ بلکہ ڈر کیا ہے ۔ نوشتہ دیوار ہے۔ ہمارے پاس کوئی معاشی متبادل نہیں ۔ احتساب کے خوف سے سرمایہ بھاگ گیا ہے ۔ وہ جو آصف علی زرداری کہتے ہیں اب وہ بالکل ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ یا تو نیب چل سکتی ہے یا پھر ملک ۔۔۔ ایک آنا تک تو ریکور نہیں کرتے ۔ الٹا کلین چیٹیں دینے میں ان کو کوئی ثانی نہیں ۔ اس وقت نیب جتنی سیاست زدہ ہوچکی ہے شاید ہی کوئی اور ادارہ ہو ۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ کاری کے لیے یہاں ماحول سازگار نہیں۔ ون ونڈو آپریشن آج تک رائج نہیں ہو سکا۔ کرپشن اور بد عنوانی کا راج ہے۔ آپ مجھے کمنٹس میں لکھ کر کوئی ایک ادارہ گنوا دیں جو اس حکومت کے دوران کرپشن فری ہوا ہو۔ یہ میں اسلیے کہہ رہا ہوں کہ عمران خان بغیر کسی چھٹی کسی نہ کسی طرح روز ہی کوئی بیان جاری کرتے ہیں ۔ حالانکہ انکی حکومت انکے بیانات کے بالکل الٹ چل رہی ہوتی ہے ۔ ابھی کل بھی انھوں نے کہا ہے کہ کرپشن مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
۔ پتہ نہیں یہ کیسے کرلیتے ہیں ۔ بڑا حوصلہ چاہیے اس کے لیے ۔ کیونکہ تین ہفتے پہلے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آئی تھی ۔ جس میں خیر سے کرپشن سے پاک عمران حکومت کے دور میں کرپٹ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر
180 ملکوں میں 120 سے 124ویں نمبر پر گرگیا ہے یعنی کرپشن میں مزید چار درجے اضافہ ہوا ہے۔ فیصلہ اب آپ خود کرلیں ۔ پھر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ سندھ واحد صوبہ ہے جس کے شہری صحت کارڈ سے مستفید نہیں ہوں گے۔تو میں ان کو بتا دوں کہ پنجابی کسان آج کھاد کی ایک بوری کے لئے دربدر ہے۔ اس وقت پنجاب کی زراعت کو سوچی سمجھی سازش کے تحت تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ ان کی حکومت کو چوتھا سال شروع ہوگیا لیکن حکمرانوں کی حرکتیں اور بیانات تبدیل نہیں ہوئے۔ جس ملک کی پارلیمنٹ سیاسی انتشار کی وجہ سے نہ چل پا رہی ہو۔ تو لوگ تو سوال کریں گے کہ جہاں سیاسی استحکام نہ ہو وہاں سرمایہ کاری کیسے ہو سکتی ہے۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دو ارب ڈالر کے قرض کے حصول کیلئے ہم اتنے مجبور ہو چکے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر پارلیمان میں قانون سازی کر رہے ہیں۔ کیا کسی نے سوچا ہے کہ اگلے سال ہماری مجبوری کا عالم کیا ہو گا اور آئی ایم ایف کی شرائط کیسی خوفناک ہوں گی۔ پھر اس سے اگلے سال؟ اور پھر اس سے اگلے سال؟۔ آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ اللہ کرے یہ نیا سال ہمارے لئے اس خواب کی تعبیر کا سال ثابت ہو جو اس ملک کو بنانے والوں نے ایک خوشحال پاکستان کے لئے دیکھا تھا۔