خواتین کے حقوق سے متعلق آواز اٹھانے والی مختلف تنظیموں نے حکومت سے گلوکار علی ظفر کو سول ایوارڈ دینےکے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
باغی ٹی وی : یوم آزادی 2020 کے موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے مختلف شعبہ جات میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والی 184 ملکی اور غیر ملکی شخصیات کو پاکستان کے اعلیٰ سول ایوارڈز سے نوازنے کا اعلان کیا گیا تھا یہ ایوراڈز آئندہ سال 23 مارچ کو یوم پاکستان پر نوازے جائیں گے-
صدر مملکت کی جانب سے 24 شخصیات کے لیے ستارہ شجاعت، 27 کے لیے ستارہ امتیاز، 23 کے لیے تمغہ شجاعت، 46 کے لیے تمغہ امتیاز، 7 کے لیے نشان امتیاز، 2 کے لیے ہلال امتیاز، ایک کے لیے ہلال قائد اعظم، 2 کے لیے ستارہ پاکستان، 6 کے لیے ستارہ قائد اعظم، ایک کے لیے ستارہ خدمت، ایک کے لیے تمغہ پاکستان، ایک کے لیے تمغہ قائد اعظم جبکہ 44 شخصیات کے لیے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کا اعلان کیا گیا تھا۔
صدر مملکت نے غیر ملکی شخصیات کے علاوہ میوزک، اداکاری، ادب اور دیگر فنون لطیفہ کے شعبہ جات سے بھی متعدد شخصیات کو ایوارڈز کے لیے نامزد کیا ہے ان میں گلوکار علی ظفر بھی شامل ہیں۔
علی ظفر نے حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کے لیے نامزدگی پر خوشی کا اظہار بھی کیا تھا اور نامزدگی کو بہت بڑا اعزاز قرار دیا تھا۔
پاکستان کے اعلیٰ سول ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والے فنکار نےپاکستان کے اعلیٰ سول ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پوسٹ کے ذریعے اللہ تعالیٰ اور حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا ۔
گلوکار علی ظفر نے قائد اعظم کے مزار کے ساتھ اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنے مداحوں کو بتایا تھا کہ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ’پرائیڈ آف پرفارمنس‘ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے –
انہوں نے مداحوں سے ملنے والے پیار اور کامیابیوں پراللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ اپنے شائقین اور مددگاروں کی جانب سے ملنے والے اس پیار کے ہمیشہ مقروض رہیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے عاجزی اور انکساری کے ساتھ شکر گزار ہیں۔
جس کے چند روز بعد اداکارہ عفت عمر نے سول ایوارڈز کی نامزدگی سے متعلق ایک تنقیدی ٹوئٹ کی تھی لیکن کسی کا نام نہیں لیا تھا۔
عفت عمر نے لکھا تھا کہ صرف پاکستان میں یہ ممکن ہے کہ حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر ہراسانی میں ملوث شخص کو ایوارڈ دیاجائے۔
Only in Pakistan an alleged Harraser gets an award backed by the Govt.Nowhere else in 21st cen. #PakistanZindabad
— Iffat Omar Official (@OmarIffat) August 16, 2020
انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ کس شخص کے حوالے سے بات کررہی ہیں تاہم لوگوں نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ عفت عمر گلوکار علی ظفر کے بارے میں بات کررہی ہیں۔جس پر سوشمل میڈیا صارفین نے علی ظفر کی مایت کرتے ہوئے عفت عُمر کو خوب سُنائیں تھیں-
جس کے بعد اب عورت مارچ، عورت آزادی مارچ، ویمن ایکشن فورم اور تحریک نسواں کی جانب سے صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں علی ظفر کو سول ایوارڈ دینے سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہا گیا ہے۔
اس حوالے سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ ہم پاکستانی معاشرے کو مزید مساوی بنانے کے لیے کام کررہے ہیں کہ جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والی خواتین کو انصاف فراہم کیا جائے اور کام کی جگہ پر تشدد کا خاتمہ اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
Feminists across Pakistan condemn the recent decision to award the Pride of Performance to Ali Zafar; an alleged harasser.
We urge the state to reconsider this year's selection pic.twitter.com/d9u4F991Oc
— Aurat Azadi March Islamabad (@AuratAzadiMarch) August 19, 2020
خط میں کہا گیا کہ ہمارا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت تمام سیاسی اداروں اور مشینری میں برابری اور انصاف کو شامل کرنے کے مینڈیٹ پر کام کررہی ہے اور پاکستانی خواتین، ٹرانس ویمن اور دیگر پسماندہ طبقات کے تحفظ ان کا خصوصی فرض ہے۔
اس میں کہا گیا کہ صدارتی دفتر کی جانب سے علی ظفر کو تمغہ حسن کارکردگی دینے کے فیصلے پر ہمیں شدید تشویش ہے کیونکہ علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد ہیں اور اس حوالے سے مقدمات تاحال جاری ہیں علی ظفر کے خلاف سپریم کورٹ میں ہراسانی اور ہتک عزت کا ایک مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ لاہور میں زیر التوا ہے- جبکہ اس دوران یہ اعزاز دیے جانے کا وقت انتہائی پریشان کن اور بے حسی ہے۔
خط میں کہا گیا کہ ہم اس تمغے کے عزت و احترام کو داغدار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔
خط میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ پریشان کن اس لیے ہے کیونکہ اس سے تاثر جاتا ہے کہ ریاست پاکستان نادانستہ طور پر زیر التوا فیصلوں سے قطع نظر جنسی ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے شخص کے ساتھ کھڑی ہے۔
خاط میں کہا گیا ک پاکستان بھر میں حقوق نسواں نے علی ظفر کو پرائیڈ آف پرفارمنس دینے کے حالیہ فیصلے کی مذمت کرتی ہے۔ریاست ایک مبینہ ہراسانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے شخص کے ساتھ کھڑی ہے
ہم ریاست سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس سال کے انتخاب پر دوبارہ غور کریں انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کے دفاتر کو امتیازی نظاموں، علامات، معیار سے وابستہ نہیں ہونا چاہیے۔
ساتھ ہی وزیراعظم سے ملازمت کی جگہوں کو ہراسانی سے پاک بنانے پر غور کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
واضح رہے کہ 2018 میں گلوکارہ میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا جس کے بعد دونوں کے درمیان طویل قانونی جنگ ہوئی۔ بعد ازاں علی ظفر نے دعویٰ کیا کہ میشا شفیع اپنے الزامات کو ثابت نہیں کرسکیں عدالت نے ان کا کیس خارج کردیا اور علی ظفر یہ کیس جیت چکے ہیں۔
جبکہ علی ظفر پر ہراسانی کے الزامات لگانے والی خواتین میں سے 2 معافی بھی مانگ چکی ہیں جن میں صوفی نامی ٹوئٹر صارف اور خاتون بلاگر و سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ مہوش اعجاز شامل ہیں۔