کیا نورمقدم کا قتل روکا جا سکتا تھا! . تحریر : فائزہ خان
جیسے جیسے لبرل ازم ہمارے معاشرے میں فروغ پا رہا ہے ویسے ویسے اس کے بھیانک نتائج بھی سامنے آرہے ہیں اس کا ایک شاخسانہ نور مقدم کا کیس ہے نور کے ساتھ کیا ہوا یہ کہانی اب کسی سے چھپی نہیں رہی مگر ہمیں تو بات کرنا ہے کہ یہ قتل کیوں ہوا
اس کے اصل ذمہ دار ہم خود ہیں جی ہاں ہم بطور معاشرہ بطور والدین بطور مسلمان ہم ہیں اصل ذمہ دار!
ہم واقعہ ہونے کے بعد پلے کارڈ لے کر کھڑے ہونا تو جانتے ہیں مگر اس واقعے کو ہونے سے روک نہیں پاتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نور قدم کا قتل روکا جاسکتا تھا جی ہاں روکا جاسکتا تھا.
اگرایک بارنورکے والد اور والدہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کی بیٹی جو کہہ رہی ہے اس میں کتنی سچائی ہے پوچھنے کی کوشش کرتے کہ یکدم بغیر بتائے کوئی اولاد کیسے کسی دوسرے شہر جا سکتی ہے کیا نور کے والدین آج کے دور کی خباثتوں کو نہیں جانتے تھے کیا ان کا فرض نہیں تھا کہ بیٹی کو اپنی دینی معاشرتی اور سماجی اقدار سکھاتے۔
نورمقدم کا قتل روکا جاسکتا تھا اگر ظاہر جعفر کا باپ ذاکر جعفر بیٹے کی کال کو سنجیدگی سے لیتا جب اس نے فون کرکے باپ سے کہا کہ نور مجھ سے شادی پے نہیں مان رہی میں اس کو قتل کرنے لگا ہوں تو کیا اسے اپنے بیٹے کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے تھا مگر دولت کی بندھی پٹی آنکھوں سے ہٹتی تو ذاکر جعفر کو اپنے بیٹے کا انداز سمجھ آتا اس نرم رویے سے تو یہی ظاہر ہے کہ بیٹے کو باپ کا بھرپور حمایت حاصل تھی اسی کی شہ تھی کہ ظاہر نے اتنی جرات کی کہ ایک جیتے جاگتے وجود کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا۔
اس قتل کو روکا جا سکتا تھا اگر وہ دوست جن کے سامنے ظاہر نے کہا کہ اگر میں ایک قتل کردوں تو کیا پاکستان کا قانون مجھ پر لاگو ہوگا کیونکہ میں تو امریکن شہریت رکھتا ہوں دوستوں کے اس بیان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اچانک طیش میں آکر کیا جانے والا قتل نہیں ہے بلکہ ظاہر کے دماغ میں اس کی پلاننگ پہلے سے چل رہی تھی یہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت قتل کیا گیا اس کا ایک اور ثبوت ہے ظاہر کی اگلے دن کی امریکہ کی فلائٹ کی کروائی جانے والی سیٹ کی بکنگ۔ مطلب وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ قتل کرنا ہے اور پھر باہر بھاگ جانا ہے.
اس قتل کو روکا جا سکتا تھا اگر وہ ملازم گیٹ کھول دیتے جب نور ان کی منتیں کر رہی تھی کہ یہ مجھے مار دے گا خدا کے لئے دروازہ کھول دو مگر نہ جانے اس گھر کی بنیادوں میں کتنے ملازم دفن ہوں گے کہ خوف کے مارے دونوں ملازم ظاہر کے باپ کو فون کرکے صورتحال بتاتے تو رہے مگر ظاہر کو روکنے کی جرات نہ کر سکے کیا خبر کل کو انہی ملازمین پر قتل کا ملبہ تھوپ دیا جائے اور ذاکر اپنے بیٹے کو لے کر صاف نکل جائے اور جس کی ہمارے عدالتی نظام سے توقع بھی کی جاسکتی ہے.
اس قتل کو روکا جا سکتا تھا اگر ہمسائے جو بہت دیر سے گھر پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے وقت پر کوئی ایکشن لیتے انہیں پولیس کو بلانا تب یاد آیا جب حادثہ رونما ہو چکا تھا اس میں ان کا قصور نہیں قصور تو اس لائف سٹائل کا ہے جس کے عادی تمام اسلام آباد کے مکین ہوچکے ہیں کہ اپنے کام سے کام رکھو کہیں کچھ غلط ہوتا دیکھو تو آنکھیں بند کر لو یہی آنکھیں بند کرنے کا انداز ہے جو ایسے حادثوں کا باعث بنتا ہے نور کے والدین نے اپنی ذمہ داریوں سے آنکھیں بند رکھیں ظاہر کے والدین نے دولت کی پٹی باندھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ہمارا معاشرہ آنکھیں بند کیے اقدار کی آخری سانسیں لے رہا ہے.
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
@_Faizakhann