کس سے منصفی چاہیں :تحریر: عرفان محمود گوندل

سینئر ایڈوکیٹ بشیر قاضی صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ بندہ دو وجوہات سے دھوکہ کھاتا ہے ۔ پہلی وجہ لالچ اور دوسری وجہ اعتماد
یعنی آپ جس سے دھوکہ کھاتے آپ اس کی باتوں میں آجاتے ہیں اور زیادہ کے لالچ میں دھوکہ کھا جاتے ہیں
دوسری وجہ جب کسی پر آپ کو اعتماد ہو ۔ لیکن دوسرے کی نیت میں فتور ہو تو وہ آپ کو دھوکہ دیتا ہے ۔
یہ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے جب قاضی بشیر ایڈوکیٹ صاحب کے ساتھ کسی محفل میں بیٹھا تھا تو ان کی زبانی سنا تھا ۔
لیکن آج کا معاشرہ ان دو باتوں کے علاؤہ بھی دھوکے دیتا ہے ۔ بلکہ اب تو دھوکہ دینے کے لیے منظم گروہ بن چکے ہیں ۔
باقاعدہ ایک ادارہ تشکیل پاتا ہے اور وہ عوام کو چونا لگا کے غائب ہو جاتا ہے ۔
پھر غائب بھی ایسے ہوتا ہے کہ اس کے آثار بھی گم ہو جاتے ہیں ۔
اسی طرح مجرمین کو چھپانے غائب کرنے یا عدالتوں سے بری کروانے کے بھی ہزار طریقے ایجاد ہو چکے ہیں ۔
دو نمبر دستاویزات تیار کرنے ، بیک ڈور چینل سے ڈگریاں لائسنس اور دوسری دستاویزات تیار کروانا ۔۔ جیسے یہ سب کچھ قانونی ہوتا جارہا ہے اور لوگ اسے قبول کررہے ہیں ۔
قوانین معاشرے تشکیل دیتے ہیں
آج سے سو سال پہلے کے حالات میں جو قوانین نو آبادیاتی نظام کی صورت میں ہم پر لاگو ہوئے تھے ان کو اس وقت کے معاشرے نے قبول کیا ۔
آج سے چالیس پچاس سال پہلے تک اسی علاقے کے لوگ ان قوانین کا احترام کرتے تھے

افسران رشوت نہیں لیتے تھے
عوام رشوت دینا جرم سمجھتے تھے
قوانین کا احترام تھا
اساتذہ ایک ہی طرح کا نصاب پڑھاتے تھے نہ ٹیوشن سینٹر نہ اردو انگریزی الگ نظام تعلیم۔
ٹریفک قوانین پہ عمل ہوتا تھا،
عدالتیں سزائیں دیتی تھیں تو وہ قبول کی جاتی تھیں ۔
مجرم جیل میں ہوتا تھا تو وہ جیل میں ہی رہتا تھا ۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ جعلی مریض بن کے ہسپتال منتقل ہو جاتا تھا ۔ یا رات کو گھر اور دن میں دکھانے کےلیے جیل میں۔
اشتہاری مجرم واقعی اشتہاری ہوتے تھے نہ کہ پولیس کی حفاظت میں۔
ملاوٹ کرنا جرم تھا
ناپ تول پورا تھا
وغیرہ وغیرہ
لیکن اب ترتیب الٹ ہے ۔
موجودہ معاشرے کے لوگوں نے ان قوانین کا جو نوآبادیاتی دور میں نافذ ہوئے تھے مذاق بنا دیا ہے۔
اب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لیکر قانون پر عمل کرنے والی عوام تک بلکہ خواص تک ان تمام قوانین سے بغاوت کر چکے ہیں۔
کوئی بھی موجودہ دور کا انسان ان قوانین کو نہ مانتا ہے نہ عمل کرتا ہے نہ عمل کرواتا ہے
بلکہ جہاں معاشرتی قوانین یا حکومتی نافذ کردہ قوانین آ جائیں یا کوئی ان کے چنگل میں پھنس جائے وہاں شارٹ کٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور قانون پر عمل نہ کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے

موجودہ قوانین سرکاری ملازمین کی ” اضافی روزی” کا ذریعہ بن چکے ہیں
عدالتیں
تھانہ کچہری
پٹواری
انکم ٹیکس
کسٹم
تعلیم
حتیٰ کہ ہر ادارہ کے ملازمین کسی بھی پھنس جانے والے شکار کو ضرور قانون کے گندے جالے میں پھنسا کے پیسے نکلواتے ہیں۔
اور عوام کو بھی معلوم ہے کہ جب تک شارٹ کٹ استعمال نہیں کرنا اس ایک ادارے کے ساتھ ساتھ دوسرے ادارے والوں کو بھی کچھ نہ کچھ دینا پڑے گا اس لیے قانون سے جان چھڑاؤ اور کچھ دے دلا کے یہیں بات کو ختم کرو ۔
کیوں نہ ایسے کیا جائے کہ اس روش کو قانونی حیثیت دے دی جائے ؟ یعنی جس طرح معاشرتی تقسیم ہے اسی طرح قوانین بھی تقسیم کر دیے جائیں اور عوام کو آزادی دے دی جائے کہ وہ کون سا طریقہ استعمال کرنا چاہتے ہیں اور اپنے کام کا کیا ریٹ دینا پسند کریں گے
یعنی کام کروانے کے سرکاری ریٹ مقرر کر دیے جائیں
جو جتنے پیسے پھینکے گا اس کو اتنا ہی جلدی رزلٹ ملے گا
مثلاً عدالت کے باہر ریٹ آویزاں ہوں
تھانے کے باہر ہر طرح کے کیس کے ریٹ آویزاں ہوں
ہسپتال کے باہر
کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والوں کی دکانوں پہ
جیسے
مردہ چکن کے تکے 40روپے فی
حلال چکن کے تکے 100 روپے فی
باسی کھانا 200 روپے فی
رازی کھانا 400 روپے فی
ہم رشوت تو ویسے بھی چھپ کے دیتے ہیں
ہم ملاوٹ زدہ کھانے تو ویسے بھی چھپ کے بیچتے ہیں
ہم ہر ناجائز کام تو ویسے بھی کرتے ہیں
جب یہ سب چھپ چھپا کے معاشرے میں جائز ہے تو اس کو ویسے ہی قانونی حیثیت دے دی جائے تو کم از کم حکومتی رٹ تو بحال ہو۔ کم از کم یہ معاشرہ انسانوں کا معاشرہ لگے نہ کہ جنگل کا۔

Comments are closed.